اوقاف اورا سلامی نقطہ نظر
مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی
وقف کی تعریف:
کسی عاقل، بالغ شخص کا اپنی مملوکہ شیئ کواپنی ملکیت سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں دیدینا اور اس کی منفعت کو ہمیشہ کے لئے رضاء الٰہی کی نیت سے کسی کارخیرکے لئے اس طرح محبوس کردیناکہ اصل شی محفوظ رہے اور اس سے حاصل ہونے والی منفعت متعینہ مصارف پر صرف ہوتی رہے، و قف ہے۔ وقف درحقیقت صدقہ جاریہ ہے، جس کا ثواب واقف کو زندگی میں بھی ملتا ہے اور مرنے کے بعد بھی۔ حدیث شریف میں ہے۔ ”عن أبی ھریرۃ أن رسول اللہ ﷺ قال : إذامات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلامن ثلاثۃ، إلا من صدقۃ جاریۃ أوعلم ینتفع بہ أوولد صالح یدعوا لہ“۔(الصحیح لمسلم،کتاب الوصیۃ،باب مایلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ:ج ۲ ص۴۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی جب مر جاتاہے تو اس کے عمل کے ثواب کاسلسلہ اس سے منقطع ہوجاتاہے، ہاں اس کی تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ثواب کاسلسلہ (موت کے بعد بھی) جاری رہتاہے، (۱) صدقہ جاریہ (۲) علم جس سے فائدہ اٹھایاجائے (۳) یا صالح اولاد جو اس کے لئے دعاکرے۔
اسلام میں وقف:
وقف کا ثبوت خود عہد نبوی اور عہد صحابہ میں ملتاہے اور پورے عالم اسلام میں اتنی جائدادیں وقف کی گئیں کہ وقف کاایک وسیع نظام وجود میں آگیا، جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے مسجد قباکے لئے زمین وقف کی، یہ اسلام میں سب سے پہلا وقف ہے، اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں سات باغوں کو وقف کیا، یہ باغ مخیریق نامی ایک یہودی کے تھے، جو ہجرت نبوی کے تیسویں ماہ کے آغاز میں اس وقت مارا گیا جب وہ غزوہ احد میں مسلمانوں کے ساتھ شریک قتال تھا، اس نے وصیت کی کہ اگر میں ماراجاؤں تو میرے اموال محمد (ﷺ) کے لئے ہوں گے، وہ انہیں اللہ کی مرضی سے صرف کریں، احد کے دن یہودیت پر ہی وہ مارا گیا، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ مخیریق اچھا یہودی تھا، نبی کریم ﷺ نے ان ساتوں باغوں کو قبضہ میں لے کر صدقہ (وقف)کردیا، جواسلام میں پہلا وقف خیری تھا۔ (الإسعاف فی أحکام الأوقاف لبرھان الدین ابرھیم ابن موسیٰ الطرابلسی الحنفی، ص:۹، ۱۰)
اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے وقف کیا، حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر کوخیبر کی ایک زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے، جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، تو آپ ﷺ مجھے کس چیز کا حکم کرتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چا ہو تو اس کی اصل کو باقی رکھ کر اس کی (پیداوار) کو صدقہ کردو، مگر یہ کہ اس کی اصل نہ بیچی جا سکتی ہے، نہ خریدی جاسکتی ہے، نہ ہبہ کی جاسکتی ہے اور نہ اس میں وراثت جاری ہوسکتی ہے، ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس کو صدقہ کردیا اس شرط کے ساتھ کہ نہ وہ فروخت کی جائے گی، نہ ہبہ کی جائیگی، اور نہ اس میں وراثت جاری ہوگی اور (اس کی منفعت) فقراء، اہل قرابت، غلام کی آزادی، مہمان اورمسافر کیلئے ہوگی، اور اس کے متولی کے لئے کوئی حرج نہیں کہ اس میں سے معروف طریقے پر کھائے اور دوستوں کو کھلائے، اس کو اپنے لئے مال نہ بنائے۔(الصحیح لمسلم:کتاب الوصیۃ، باب الوقف:۲/۱۴) اس کے علاوہ حضرت ابو بکر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت عائشہ، فاطمہ، عمرو بن العاص، ابن زبیر، حضرت جابر ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین نے کارخیرکے لئے اپنی اپنی جائدادیں و قف کی ہیں۔ فَإِنَّ الْمَسْأَلَۃَ إِجْمَاعٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَذَلِکَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیًّا وَعَاءِشَۃَ وَفَاطِمَۃَ وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَابْنَ الزُّبَیْرِ وَجَابِرًا کُلَّہُمْ وَقَفُوا الْأَوْقَافَ، وَأَوْقَافُہُمْ بِمَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ مَعْرُوفَۃٌ مَشْہُورَۃٌ. (تفسیر القرطبی، المائدۃ،۱۰۳،ج:۶ ص ۳۳۹)
وقف کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ حضوراقدسﷺ نے خود اپنی زمین وقف ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کو وقف کرنے کی ترغیب بھی دی؛چنانچہ حضرت عثمان ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے،وہاں رومہ کے کنواں کے علاوہ کوئی میٹھا نہیں تھا،آپ ﷺ نے فرمایا:کون بئر رومہ کوخرید کر اپنے ڈول کے ساتھ اس میں مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا،کہ اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے خیر ہو؟تو میں نے اپنے اصل مال سے اسے خرید لیااور اس میں اپنے ڈو ل کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کوبھی شریک کرلیا۔(السنن للترمذی،أبواب المناقب،باب مناقب عثمان بن عفان:ج ۱ ص ۲۱۱)
مقاصد وقف:
اسلام میں نیکی کے کاموں اور خیر اتی مقاصد کے لئے زمین جائدا د اورمال وقف کرنا بہت بڑا کار ثواب او رصدقہ جاریہ سمجھاجاتاہے، وقف کا بنیادی مقصد ہے انسانی فلاح، پریشان حال و مصیبت زدہ اشخاص کی امداد، بیماروں کی تیمارداری اور علاج ومعالجہ، یتیموں، ضرورتمندوں، بیواؤں، مطلقہ خواتین اور بے سہارا افراد کی کفالت، لاوارث نعش کی باعزت طریقہ پر تجہیز وتکفین، نظام مساجد وعید گاہ کو منظم و استوار رکھنا اور اس کے اخراجات کانظم،سماج کے غریب ومفلس لوگوں کی حاجت روائی، قوم کے بچوں کو تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنا، مدارس و مکاتب، اسکول، کالج اور صنعتی تربیت گاہوں کا قیام، اسپتال کا قیام، مسافروں کے قیام کا نظم، حاجیو ں کے طعام و قیام کا نظم، سرحدوں کی حفاظت،اور قیدیوں کو چھڑانے کانظم،ماحولیات کی حفاظت،حیوانات اور چرند وپرندکے لئے غذا کی فراہمی،پانی کا نظم یہ اور ان جیسے کارخیر اوقاف کے بنیاد ی مقاصد ہیں، جن کے لئے مسلمان اپنی زمین وجائداد مکان اور مال وقف کرتے ہیں تاکہ زندگی میں توان کو اس کا ثواب ملے ہی، مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب ملتا رہے۔
وقف کا حکم:
اوقاف کے سلسلہ میں اسلام کا اصل نقطہ نظر یہ ہے کہ اوقاف دائمی ہوتے ہیں، وقف کے تام ولازم ہو جانے کے بعد شیئ موقوف واقف کی ملکیت سے نکل کراللہ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے؛ اس لئے عام حالات میں ان کو فروخت کرنا، یا منتقل کرنا جائزنہیں ہے، رسول اللہ ﷺ کا وقف کے بارے میں ارشاد ہے۔ لَا تُبَاعُ، ولاتورث ولَا تُوہَبُ۔(الصحیح لمسلم: ج ۲ ص ۱۴)۔ ترجمہ : ( نہ فروخت کیا جا سکتا ہے اورنہ ہی اس میں وراثت جاری ہوسکتی ہے اورنہ ھبہ کیا جا سکتا ہے )؛ لہٰذا اوقاف کی جائداد کو اصلی حالت پر باقی رکھتے ہوئے انہیں نفع آور، اور مفید بنانے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے، اور ایسے قانون بنانے چاہئیں جن سے اوقاف کی جائداد کا مکمل تحفظ ہو اور وقف کرنے والوں کے منشاء کی رعایت کے ساتھ اوقاف کی افادیت و نافعیت میں اضافہ ہو۔