ہندوستان میں اوقاف
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہی سے اوقاف کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، مسلم سلاطین، مشائخ، صوفیاء اور اصحاب ثروت عوام نے بھی ہر دور میں بہ کثرت جائدادیں وقف کیں اور وقف کایہ سلسلہ جاری ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ۵۷۸ھ مطابق ۱۱۹۱ء میں سلطان قطب الدین ایبک کے ہاتھوں دہلی میں سب سے پہلی مسجد قوۃ الاسلام، مینارہ اور مدرسہ بطور وقف قائم کیا گیا جو باضابطہ پہلا وقف شمار کیا جاتا ہے، اس کے بعد مساجد، مدارس اور ہسپتال وغیرہ مختلف دینی، ملی وفلاحی مقاصد کے لئے مسلمانوں نے جائدادیں وقف کیں اس طرح پورے ملک میں اوقاف کا جال بچھ گیا جن کو مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔
جن کی نگرانی حکومت کے مقرر کردہ قاضی کیا کرتے تھے اور ہر مملکت کے اندر واقع اوقاف کی عام نگرانی صدر الصدور کی ذمہ داریوں میں شامل تھی، قاضی اوردیگر خدمات شرعیہ پر مامور اصحاب صدرالصدور کے تحت اپنے فرائض انجام دیتے تھے، مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اور ملک میں افرا تفری نے اوقاف کے اس نظام کو متأثر کیا، انگریزوں کے قبضہ کے ساتھ یہ صورتحال بدسے بدتر ہوتی چلی گئی۔
ہندوستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں مختلف مقاصد کے لئے پانچ لاکھ سے زائد اوقاف کی جائدادیں ہیں جو زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہیں، ان اوقاف کی دیکھ بھال کے لئے حکومت نے سینٹرل وقف بورڈ اور صوبائی وقف بورڈ س بھی قائم کرکھے ہیں۔
ملک کی آزادی کے بعد ۱۹۵۳ء میں اوقاف کے تحفظ و نگرانی کے لئے پارلمینٹ میں مشہور مسودہ قانون کاظمی بل پیش ہوا، اس میں ترمیمات کا مطالبہ کیا گیا اورچند مطالبات قبول کرتے ہوئے ۱۹۵۹، ۱۹۶۴، اور ۱۹۶۹ء میں ترمیمات کی گئیں، اس پر بھی اعتراضات اور ترمیمات کا مطالبہ ہوتا رہا تو قانون وقف بابت ۱۹۹۵ء کی شکل میں منظور ہوا، پھروقف ایکٹ ۲۰۱۳ منظور ہوا، اب موجودہ حکومت وقف ۲۰۱۳ء میں ایسی ترمیمات کرنا چاہتی ہے جس سے وقف کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہوگا اور وقف بورڈ کے اختیارات ختم ہوجائیں اور اوقاف میں خورد برد ناجائز قبضہ آسان ہو جائے گا؛ اس لئے کہ مسلمانوں کا دینی وملی فریضہ ہے کہ اوقاف کے تحفظ کے لئے ہرممکن کوشش کریں۔