گنگوہ کی تاریخی حیثیت
بعض لوگوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ زمانہ قدیم میں یہاں کسی ہندو راجہ کی حکمرانی تھی جس کا نام راجہ گنگ تھا، غالباً اسی کے نام سے اس بستی کا نام زمانہ قدیم سے گنگوہ مشہور چلا آرہا ہے ، چونکہ یہ راجہ ایک سخت ہندو متعصب ذہن کا مالک تھا ، اس لئے اس سے مزاحمت اور جہاد کے لئے اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلئے یہاں کچھ مجاہدین بھی تشریف لائے ، انہوں نے اس سے مقابلہ کیا ، چنانچہ قصبہ کے مختلف علاقوں میں بہت سے مزارات اس انداز کے ملتے ہیں کہ لوگ ان کو شہداء کے نام سے یاد کرتے ہیں جو پہلے قصبہ سے باہر تھے اور قصبہ گنگوہ کے وسیع و عریض ہونے کی وجہ سے کچھ اندر ہیں کچھ باہر ہیں ، بعض قرائن سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قافلہ سلطان شہاب الدین محمد غوری کے زمانہ میں آیا تھا ، گنگوہ کا وہ علاقہ جو قصبہ کی عام سطح سے ستر اسی فٹ بلند ہے ایک زمانہ میں اسی بادشاہ اور اس کے متعلقین کا علاقہ ہوتا تھا ، کہا جاتا ہے کہ اس علاقہ میں راجہ گنگ کے قلعے اور محلات بھی تھے اور یہ آثار و نشانات کچھ باقی ہیں اور کچھ تقریبا ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
بہر حال گنگوہ کی تاریخی حیثیت کچھ ہی کیوں نہ ہو یہ امر واقعہ ہے کہ اس کی اہمیت کی اصل وجہ حضرت شیخ عبد القدوس صاحب کی آمد اور سکونت و قیام کی وجہ سے ہے اور ان کے بعد پھر ان کی اولا د امجاد میں علماء صلحاء فقہا ومحد ثین ، صوفیاء و عارفین کا سلسلہ شروع ہوا، تبلیغ اسلام اور تبلیغ دین کا ایک دینی ماحول تیار ہوا، لوگ آپ کے پاس آنے لگے اور فیضیاب ہونے لگے ، حضرت شیخ سے پہلے بھی یہاں بہت سے حضرات رہتے تھے اور ان میں بھی اچھے اچھے حضرات تھے۔
سرزمین گنگوہ شریف کا ایسی خاص بستیوں میں شمار ہوتا ہے جیسے مکہ شریف ، مدینہ شریف، کلیر شریف، اجمیر شریف اسی طرح گنگوہ شریف ہے۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے قیام نے طبیہ کو مدینہ شریف بنا دیا، اسی طرح اولیائے کرام کی نسبتوں سے یہ بستیاں بھی متبرک بن جاتی ہیں، گنگوہ کی سرزمین پر حضرت شاہ عبد الحق ردولوی کے خلیفہ مجاز حضرت شیخ عبد القدوس قطب عالم نے قدم رنجہ فرما کر سر زمین گنگوہ کو مرجع خلائق بنا دیا۔