ویران اوقاف کا حکم
ویران اوقاف اگر مساجد ہیں جس میں نماز باجماعت ادا کی جا چکی ہے اور وہ ایسی آبادی میں ہیں جہاں کے مسلمان دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں، اب وہاں مسلمان نہیں ہیں؛ توایسی صورت میں ان مساجد کو دوسرے کارخیر میں استعمال نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کو فروخت کرکے دوسری جگہ زمین خریدی جا سکتی ہے؛ اس لئے کہ جس جگہ ایک مرتبہ مسجد بن جاتی ہے وہ جگہ تاقیامت مسجد کے حکم میں رہتی ہے، ایسی مساجد کو مساجد کے مصرف ہی میں استعمال کیا جائے گا، دوسرے کاموں میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے، ان مساجد کو چہار دیواری وغیرہ کے ذریعہ محفوظ کر دیا جائے تا کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو،
البتہ اگر مساجد کے علاوہ دوسرے اوقاف ہیں اور وہاں مسلمانوں کی آبادی بالکل ختم ہوچکی اور دور دور تک مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے اوقاف کو آباد کرنا اور واقف کے منشاء کے مطابق ان کو استعمال میں لانا ناقابل عمل ہو گیا ہے اور ان اوقاف پر غیروں کا قبضہ کا قوی اندیشہ ہے، تو ایسے اوقاف کو فروخت کر کے دوسرے مقامات پر درج ذیل شروطوں کے ساتھ اسی قسم کے اوقاف قائم کرنا جائز ہوگا۔
(۱) وہاں مسلمانوں کی آبادی بالکل ختم ہوچکی ہواور مستقبل قریب میں مسلمانوں کے آباد ہونے کی کوئی امید نہ ہو۔
(۲) وقف جائد اد کو مارکیٹ ویلیو کا لحاظ کرتے ہوئے مناسب قیمت پر فروخت کیا جائے۔
(۳) وقف کو فروخت کرنے والا اپنے کسی قریبی رشتہ دار یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت نہ کرے جس سے اس کا مفاد وابستہ ہو۔
(۴) وقف کی جائد اد کی فروختگی روپے کے بجائے زمین سے کی جائے، اور اگرکوئی قانونی یاعملی دشواری ہو تو نقد روپے کے ذریعہ فروخت کیا جائے؛ لیکن جتنی جلدی ممکن ہو اس سے جائداد خرید کر متبادل اوقاف قائم کر دیا جائے۔
(۵) وقف کے تبادلہ یا فروختگی کی اجازت قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ سے ہو۔
(۶) موقوفہ دکان، زمین وجائداد کو فروخت کرکے جو دکان، مکان زمین جائداد خرید ی جائے گی ان سے حاصل شدہ آمدنی بھی انہیں مقاصد پر صرف ہوں جن کے لئے پہلا وقف کیا گیا تھا۔