وقف ایکٹ 1995 اور وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابل اور ترمیمات سے اوقاف پر پڑنے والے اثرات

وقف ترمیمی بل 2024 کے ترمیم نمبر 31 سے اوقاف پر پڑنے والا اثر

ترمیمی نمبر

31
سیکشن 9 کے سب سیکشن 2 میں ترمیمات

وقف ترمیمی بل 2024 کے ترمیم نمبر 31 سے اوقاف پر پڑنے والا اثر
وقف ترمیمی بل 2024 کے ترمیم نمبر 31 سے اوقاف پر پڑنے والا اثر

وقف بل 2024

اصل ایکٹ کے شق 9 میں، ذیلی شق (2) کی جگہ، درج ذیل ذیلی شق شامل کیا جائے گا، یعنی:
“(2) کونسل مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ہوگی؛
— (a) وزیرمملکت (یونین منسٹر) جن کے پاس وقف کے چیئر پرسن کا چارج ہو گا۔
(b)تین پارلیمنٹ کے ارکان جن میں سے دو افراد کا انتخاب لوک سبھا سے ہوگا اور ایک راجیہ سبھا سے؛
(c) مرکزی حکومت کے ذریعہ مسلمانوں میں سے درج ذیل ارکان کا انتخاب کیا جائے گا، یعنی؛
(i) تین افراد جو آل انڈیا نوعیت اور قومی اہمیت کی حامل مسلم تنظیموں کی نمائندگی کریں؛
(ii)تین بورڈز کے چیئرمین باری باری سے (by rotation) ۔
(iii)ایک شخص جو ایسے اوقاف کے متولیوں کی نمائندگی کرے جن کی مجموعی سالانہ آمدنی پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہو؛
(iv)تین افراد جو مسلم قوانین کے ممتاز عالم ہوں؛

(d) دو افراد جو سپریم کورٹ یا کسی ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہوں؛
(e) ایک قومی سطح کے شہرت یافتہ وکیل؛
(f) چار قومی سطح کے شہرت یافتہ افراد، ان میں سے ہر ایک یا تو ایڈمنسٹریشن یا مینجمنٹ، یا فینانشیل مینجمنٹ ، انجینئرنگ یا آر کی ٹیکچر اور طب کے میدان سے ہوگا۔
(g) مرکزی حکومت میں ایڈیشنل سکریٹری یا جوائنٹ سکریٹری جو یونین منسٹری میں یا محکمہ میں وقف امور سے منسلک ہو۔رکن بحیثیت عہدہ
یہ شرط ہے کہ شق (c) کے تحت منتخب کیے جانے والے دو ارکان خواتین ہونی چاہئیں؛
یہ شرط ہے کہ اس ذیلی شق کے تحت منتخب ہو نے والے دو ارکان غیر مسلم ہونے چاہئیں؛

وقف ایکٹ 1995

سیکشن 9 کا سب سیکشن2:
کونسل مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ہوگی ۔
(الف)وقف کا انچارج مرکزی وزیر(چیئرپرسن بہ اعتبار عہدہ)
(ب)مندرجہ ذیل اراکین کی مرکزی حکومت کے ذریعہ مسلمانوں میں سے تقرری کی جائے گی، یعنی:
(i)تین اشخاص جو ملکی حیثیت والی اور قومی اہمیت کی حامل مسلم تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہوں ؛
(ii) قومی شہرت والے چار اشخاص جن میں سے ایک ایک انتظام یا انصرام، مالی انتظام وانصرام انجینئرنگ یا فن تعمیر اور میڈیسن کے شعبہ میں سے ہوگا ؛
(iii) تین پارلیمنٹ کے ارکان جن میںسے دولوک سبھا کے اور ایک راجیہ سبھا کے رکن ہوں گے؛
(iv)تین بورڈوں کے چیئرپرسن باری باری سے؛

(v) دو اشخاص جو سپریم کورٹ یا کسی ہائی کورٹ کے جج رہے ہوں ؟
(vi)قومی شہرت یافتہ ایک ایڈوکیٹ؛
(vii)ایک شخص جو ایسے اوقاف کے، جن کی کل سالانہ آمدنی پانچ لاکھ روپے یا اس سے زائد ہو، متولیوں کی نمائندگی کرے گا؛
(viii)تین افراد جو مسلم قانون کے شہرت یافتہ عالم ہوں ۔
مگر شرط یہ ہے کہ ذیلی دفعات (i)تا (viii) کے تحت مقرر کیے جانے والے اراکین میں کم از کم دو خواتین ہوں گی ۔

ترمیم سے پڑنے والا اثر

اس ترمیم کے ذریعہ مرکزی وقف کونسل کے اراکین کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ 1995 کے ایکٹ میں مجموعی اراکین میں سے دو خواتین کے ہونے کی شرط تھی ، اس بل میں ہے کہ مرکزی حکومت کے تحت جن اراکین کا انتخاب مسلمانوں میں سے کیا جا ئے گا، اس میں دو خواتین کا ہونا شرط ہے ۔
دوسری قابل ذکر ترمیم یہ ہے کہ اس میں شرط لگائی گئی ہے کہ مجموعی اراکین میں دو ارکان غیرمسلم ہونے چاہیے۔
یہ سراسر ناانصافی پر مبنی اور متعصبانہ شرط لگائی گئی ہے۔اور اسلام کے نظام عبادت میں دخل اندازی کی کوشش کرنی ہے۔اس ملک میں دیگر مذاہب کی بھی مذہبی کمیٹیاں ہیں جن میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ممبر نہیں بنایا جاتا؛ لیکن مسلمانوں کی مذہبی کمیٹیوں میں غیر مسلم ممبران ہونے کی شرط لگانا کسی طور پر بھی درست نہیںہے ۔

بعض لوگ دونوں میں فرق بیان کرتے ہیں کہ عبادت گاہوں کی کمیٹی اور اوقاف کی کمیٹی دونوں الگ الگ چیزیں ہیں تو شاید وہ جان بوجھ کر انجان بنتے ہیں کہ اوقاف کے بیشتر حصہ کا تعلق اسلامی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں ، تربیت گاہوں اور اسلامی شعائر سے ہے ۔ اگر غیر مسلم کی شمولیت اس میں ہوگی تو شعائراسلام میں مداخلت کا راستہ کھلے گا ۔ اس لیے یہ شرط بالکل قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare