وقف ایکٹ 1995 اور وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابل اور ترمیمات سے اوقاف پر پڑنے والے اثرات
وقف ترمیمی بل 2024 کے ترمیم نمبر 30 سے اوقاف پر پڑنے والا اثر
ترمیمی نمبر
30
سیکشن 7 کے سب سیکشن 1 میں ترمیمات
وقف بل 2024
8.اصل ایکٹ کے شق 7 میں، ذیلی شق (1) میں:۔
(i) الفاظ “سنی وقف” کے بعد، الفاظ “یا آغا خانی وقف یا بوہرا وقف”شامل کیے جائیں گے؛
(ii) الفاظ “اور اس پر ٹربیونل کا فیصلہ حتمی ہوگا” کو حذف کر دیا جائے گا؛
(iii) پہلی شرط میں، الفاظ”ایک سال” جہاں بھی آئیں گے، ان کی جگہ الفاظ “دو سال” شامل کیے جائیں گے؛
(iv) دوسری شرط میں الفاظ “یہ مزید شرط ہے کہ” کی جگہ درج ذیل پیرا گراف شامل کیا جائے گا، یعنی؛”یہ مزید شرط ہے کہ ٹربیونل درخواست کو پہلی شرط میں بیان کردہ دو سال کی مدت کے بعد بھی تسلیم کر سکتا ہے، اگر درخواست دہندہ ٹربیونل کو مطمئن کردے کہ اس نے اس مدت کے اندر درخواست نہ دینے کے لیے مناسب وجہ پیش کر دی ہے۔
وقف ایکٹ 1995
سیکشن 7 کا ذیلی سیکشن 1:
اوقاف کی بابت تنازعات کا فیصلہ کرنے کا ٹریبونل کو اختیار: اگر ایکٹ ہذا کے نفاذ کے بعد کوئی سوال یا تنازعہ پیدا ہو جائے کہ آیا اوقاف کی فہرست میں وقف جائداد کے طور پر صراحت کی گئی کوئی مخصوص جائداد وقف جائداد ہے یا نہیںیا اس فہرست میں مذکور وقف ، سنی وقف ہے یا شیعہ ہے تو وقف کا بورڈ یا متولی دفعہ5 کے تحت فہرست کی اشاعت سے متاثر کوئی شخص، اس جائداد کی نسبت اختیارر سماعت رکھنے والے ٹریبونل میں اس سوال کے فیصلے کے لے درخواست دے سکے گا اور اس پر ٹریبونل کا فصلہ حتمی ہوگا:
بشرطیکہ :
ریاست کے کسی حصے سے متعلق اوقاف کی فہرست کے معاملے میں جسے اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد شائع کیا گیا ہو، ایسی کسی درخواست پر اوقاف کی فہرست شائع ہونے کی تاریخ سے ایک سال گزر جانے کے بعد غور نہیں کیا جائے گا؛ اور ریاست کے کسی حصے سے متعلق اوقاف کی فہرست کے معاملے میں جسے اس ایکٹ ہذا کے نفاذ سے عین قبل ایک سال کے عرصہ کے اندر کسی وقت شائع کیا جائے گا، ایسےکسی درخواست پر ایسے نفاذسےایک سال کے عرصہ کے اندر ٹریبونل کے ذریعہ غور کیا جا سکے گا:
مزید شرط یہ ہے کہ جہاں ایسے کسی سوال کی، ایسے نفاذ سے قبل دائر کسی دعوے میں کسی دیوانی عدالت کے ذریعہ سماعت کی گئی ہو اور اس کا حتمی فصلہ کر دیا گیا ہوتو ٹریبونل ایسے سوال کی دوبارہ سماعت نہیں کرے گا۔
ترمیم سے پڑنے والا اثر
ان ترمیمات کے ذریعہ ٹربیونل کے اختیارات کو کم کیا گیا ہے۔ نیز اوقاف کے تعلق سے تنازعات اور اوقاف کے خلا ف دعووں کے راستہ کو مزید کشادہ کر دیا گیا ہے ، ٹریبونل کے فیصلہ کے دو سال بعد بھی اوقاف کے خلاف دعویٰ کیا جاسکتاہے، یہاں تک کہ اس ایکٹ کے ذریعہ اب دیوانی عدالت کے ذریعہ حتمی فیصلہ ہونے کے باوجود دعووں اور تناعات کو قبول کر لیا جائے گا ۔
ظاہر سی بات ہے کہ ان ترمیمات سے اوقاف کے تحفظ پر غیر معمولی ضرب پڑنے والی ہے اور اعتراضات ، دعووں اور تنازعات کا دائرہ مزید وسیع ہو گا اور اس کے بعد تو معاملہ کلکٹر کے ہاتھ میں جائے گا جہاں وہ حکومت کے منشا کے مطابق اس کے اشارے کی بنیاد پر اپنی رپورٹ دے گا اور اوقاف کی جائدادوں کو حکومت کے حوالہ/ مدعیان کے حوالہ کرتا چلا جائے گا ۔ اہل نظر اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ ان ترمیمات کے پیچھے حکومت کے کون سے مذموم عزائم کار فرما ہیں ۔