وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابلی جائزہ

8 اگست 2024 کو مرکزی حکومت میں اقلیتی فلاح کے وزیر کرن رجیجو نے پارلیامنٹ کے ایوان زیریں میں  ایک بل بنام وقف امینڈمنٹ بل 2024 پیش کیا ۔ جس کی اپوزیشن نے  مخالفت کی ، بعض سرکار کی حلیف پارٹیوں نے بھی اس کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا اپوزیشن کی زبردست مخالفت پر بل جے پی سی کے سپرد کر دیا گیا ہے ، بی جے پی کے رکن پارلیمان جگدمبیکا پال کی قیادت میں تشکیل شدہ 31 ممبران کی جے پی سی یعنی جوائنٹ پارلیامنٹ کمیٹی میں 21 ارکان ایوان زیریں سے اور 10 ارکان ایوان بالا سے ہیں ۔ 22 اگست کو پہلی نشست ہوئی  جو ہنگامے کی نذر ہو گئی اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔

جو بل پیش ہوا ہے، اس کی دفعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے پورے ہوم ورک کے بعد اپنے پوشیدہ خطرناک عزائم کو پورا کرنے اور وقف کی املاک پر اپنا شکنجہ کسنے کے لیے یہ قانون بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اس بل کی مخالفت کرنا اور اس کوموجودہ صورت میں  کسی بھی حال میں پاس نہ ہونے دینا مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے ورنہ اگر لا پرواہی برتی گئی تو پورے ملک میں اوقاف پر تنازعات سامنے آئیں گے ، اسلام کے نظام عبادت اور شعائر اسلام میں بے جا مداخلت ہوگی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہزاروں املاک وقف نکل جائیں گے ۔

وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابلی جائزہ
وقف ترمیمی بل 2024 کا تقابلی جائزہ

آل انڈیا ملی کونسل  نے پورے ملک میں تحفظ وقف  اور  مجوزہ ترمیمی بل 2024 کی مخالفت کی تحریک شروع کی ہے ۔اس بل کے پارلیامنٹ میں پیش ہونے کا اندازہ ہوتے ہی 5 اگست 2024 کو دہلی میں مختلف پارٹیوں کے ممبران پارلیامنٹ اور سیاسی نمائندگان کے ساتھ میٹنگ کی گئی اور ان کے سامنے وقف کے تحفظ کے مسئلہ کو رکھا گیا اور اس کے حل پر غور و خوض کیا گیا۔ بل کے سامنے آنے کے بعد سے ملی کونسل لگاتار جے پی سی کے اراکین ، اپوزیشن جماعتوں کے ذمہ داران ، بی جے پی کی حلیف پارٹیوں کے ذمہ داران اور اراکین ایوان بالا و ایوان زیریں سے بات کر کے اپنا موقف ان کے سامنے رکھ رہی ہے ۔ اسی ضمن میں مورخہ 25 اگست 2024کو  اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ پٹنہ میں ایک کانفرنس منعقد کر رہی ہے ، جس میں اوقاف کے متولیان ، ائمہ کرام، وقف بورڈ کے ممبران و ذمہ داران، علماء کرام ، دانشوران  ، ماہرین قانو ن اور ماہرین تعلیم کو دعوت دی گئی ہے ۔ ساتھ ہی ایک راؤنڈ ٹیبل میٹنگ بھی بلائی ہے ، جس میں بہار سے تعلق رکھنے والے اراکین ایوان بالا اور ایوان زیریں کے علاوہ بہار قانون ساز کونسل اور اسمبلی کے ممبران کو دعوت دی گئی ہے ۔ ملی کونسل کا مقصد ان  کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنا  اور ان کی وساطت سے جے پی سی اورحکومت تک اپنا موقف پیش کرنا ہے ۔

یہ بل انگریزی میں پیش ہوا ہے ، عام لوگوں کو بھی یہ بل سمجھ میں آجائے ، ساتھ ہی اس میں کیا خرابیاں ہیں وہ بھی سب کے سامنے آجائیں، اس کے لیے آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر و چیئر مین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کی ہدایت پر راقم نے بل کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا اور ساتھ ہی 1995 کے وقف ایکٹ سے اس کا موازنہ کر کے تمام ترمیمات اور ان کی وجہ سے اوقاف پر پڑنے والے اثرات اور نتائج کی نشاندہی بھی کی ہے ۔

عام استفادہ کے لیے ملی کونسل بہار اس کو کتابی کی شکل میں شائع کر ہی ہے ، اس کو پڑھ کر اندازہ ہو گا کہ یہ بل کتنا خطرناک ہے اور اس کے ذریعہ کن مذموم عزائم کی تکمیل کی کوشش کی گئی ہے ۔   جن نتائج اور اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے ، وہ اپنے ناقص علم کی بنیاد پر کی گئی ہیں ۔ علماء کرام اور  ماہرین قانون حضرات سے گزارش ہے کہ وہ اس کا گہرائی سے جائزہ لیں اور آئین اور شریعت کی روشنی میں  اس کی خرابیوں کو واضح کریں اور حکومت اور جے پی سی کے سامنے انہیں رکھ کر بل کو واپس لینے کا مطالبہ کریں ، ایسی خبر آرہی ہے کہ عنقریب جے پی سی عام لوگوں سے بھی رائے مانگے گی اور جلد ہی اس کے لیے اشتہار شائع کرے گی  ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تمام  اہل نظر حضرات  اپنی اپنی جانب سے مسلمانوں کے موقف کو ضرور جے پی سی کے سامنے رکھیں ۔اللہ کرے ہم سب لوگوں کی کوشش بار آور ثابت ہو اور یہ بل ردی کی ٹوکری میں چلا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare