نظم کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی

فہرست

نظم کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی

اردو شاعری میں مختلف اصناف رائج ہیں جن میں ایک نظم بھی ہے۔ یہ ایک بیانیہ صنف ہے جس میں موضوع اور بیان دونوں اعتبار سے بہت تنوع ہے۔ اس صنف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزل جیسی مقبول ترین صنف کے مقابلے نظم کی صنف نے خود کو تسلیم کروایا اور اردو شاعری میں اپنا ایک خاص مقام بنایا۔ نظم کے ارتقا کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اردو شاعری کے ساتھ ایک بہت طویل سفر کر کے اس صنف نے اس قدر مقبولیت اور اہمیت حاصل کی ہے۔ ابتدا میں اردو شاعری میں اس صنف کی کوئی اپنی شناخت نہیں تھی ۔ رفتہ رفتہ نظم نے اپنی شناخت قائم کی اور ترقی کی ۔ نظیر اکبر آبادی نے نظم کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد سرسید کی اصلاحی تحریک کے زیر اثر حالی اور محمد حسین آزاد نے نظم پر خصوصی توجہ دی اور یہ صنف اردو شاعری میں مرکزی حیثیت اختیار کرگئی۔ اس کے بعد ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بھی اعظم نے اپنی ترقی کے مراحل طے کیے۔ 

نظم کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی
نظم کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی

نظم مسلسل ترقی کرتی رہی اور خود کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتی رہی۔ نظم وسعت بیان، تسلسل، اظہار کے وسیع امکانات اور آزادی اظہار کی وجہ سے ایک بہترین صنف ہے۔ نظم کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں ہے۔

اس پوسٹ میں ہم نظم کے متعلق ضروری باتیں، مثلاً : نظم کی تعریف، اقسام، اجزائے ترکیبی اور اس کی خصوصیات سے متعلق معلومات حاصل کریں گے۔ 

نظم کی تعریف

نظم شاعری کی ایک ایسی صنف ہے جس میں کسی ایک موضوع پر ربط و تسلسل کے ساتھ اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ نظم میں موضوع اور ہیئت کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔ اردو شاعری میں نظم کی اصطلاح کا استعمال ایک مخصوص اور معین صنف کے طور پر نظم جدید کی تحریک کے زیر اثر ہوا۔ انگریزی ادب کے زیر اثر اردو شاعری میں نئی منظومات کے جو نمونے ابتدا میں ترجمہ یا تشخیص کے طور پر سامنے آئے۔ ان کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی گئی۔ 

ابتدا میں نظم سے کلام موزوں اور شعر مراد لیا جاتا تھا۔ یہ اصطلاح نثر کے متضاد معنی میں مستعمل تھی ۔ اردو کے قدیم شعراء وادباء نے بھی لفظ نظم کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً اشرف بیابانی نے اپنی طویل مثنوی نوسر ہار میں جو حضرت امام حسین کی شہادت پر لکھی ہے نظم کو شعر کے مفہوم میں استعمال کیا ہے:

نظم لکھی سب موزوں آن

یوسب ہندی کر آسان 

غواصی نے بھی مثنوی سیف الملوک و بدیع الجمال کے خاتمے میں نظم کو سلسلۂ اشعار کے مفہوم میں استعمال کیا ہے:

 بہر حال یو نظم الہام سوں

کیا میں نول شاہ کے نام سوں 

شمالی ہند میں بھی نظم کو کلام موزوں کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا تھا۔ میر حسن نے اپنے تذکرہ تذکرہ شعرائے اردو میں سودا کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ان کی شاعری کو نظم سے تعبیر کیا ہے: 

نظمش طرب انگیز است (ترجمہ: ان کی شاعری فرحت بخشنے والی ہے ) 

اصطلاح میں نظم سے مراد وہ اصناف سخن ہیں جن میں کسی ایک عنوان یا موضوع کے تحت مسلسل اظہار خیال کیا جائے ۔ اس اعتبار سے نظم کے دائرے میں مثنوی ، قصیدہ، مرثیہ اور واسوخت وغیرہ آجاتے ہیں مگر جدید علم ان سے الگ اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ 

چونکہ مثنوی ، قصیدہ اور مرثیہ وغیرہ اردو شاعری میں قدیم زمانے سے رائج اصناف رہی ہیں لیکن اس کے باوجود جدید نظم نے مذکورہ اصناف سے نمایاں ہو کر بھی اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب عموما مرثیہ مثنوی، قصیدہ اور واسوخت وغیرہ سے نظم کا تصور ذہن میں نہیں آتا بلکہ ایک مخصوص اور منفرد صنف کا تصور ابھرتا ہے۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے نظم ہمیں مثنوی اور بیت کی صورت میں اور پھر کئی مختلف صورتوں میں اپنے ارتقائی مراحل طئے کرتی ہوئی اور اپنے خدو خال مرتب کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

 اردو شاعری کے ابتدائی دور میں نظم ایک صنف کے طور پر متعارف نہیں تھی بلکہ شعر موزوں یا کلام موزوں کو نظم سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ بعد میں نظم کی اصطلاح شاعری میں غزل کے علاوہ بیانیہ اصناف کے معنی میں مستعمل ہونے لگی۔ اس کے بعد نظم دیگر بیانیہ اصناف میں بھی نمایاں ہوتی گئی اور ایک منفرد صنف کے طور پر متعارف ہو گئی نظم اردو شاعری کی ایک ایسی صنف ہے جس میں موضوع اور بیئت کے اعتبار سے بہت تنوع پایا جاتا ہے۔ نظم کا کوئی متعین موضوع اور کوئی مخصوص صورت یا ہیئت نہیں ہے۔ نظم اپنے اندر دوسری صنف ہیئت کے مقابلے میں زیادہ وسیع امکانات رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حد بندی یا دائرہ بندی بھی ایک مشکل امر ہے۔ 

اردو شاعری میں نظم کی اصطلاح طویل عرصے تک نثر کے متضاد معنی کے طور پر ہی یعنی کلام موزوں کے معنی میں ہی مستعمل رہی ۔ نظم کی بحیثیت ایک منفرد صنف کے اس کی شناخت قائم کرنے میں الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سرسید تحریک کے نظریات سے متاثر ہو کر حالی اور آزاد نے نیچرل شاعری کی بنیاد رکھی اور ہالرائڈ کی سر پرستی میں انجمن پنجاب کے قیام اور اس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعروں نے نظم کو شاعری کی دیگر اصناف کے درمیان نمایاں کیا۔

نظم کے اجزائے ترکیبی

نظم میں ایک عنوان کے تحت مخصوص موضوع پر اس طرح اظہار خیال کیا جاتا ہے کہ ربط و تسلسل قائم رہے اور شدت جذبات کے ساتھ موثر طریقے سے بات کو پیش کیا جائے۔ نظم کی تشکیل کے لیے کچھ اجزایا عناصر ضروری ہیں جن سے نظم کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ نظم کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں : 

راوبط و تسلسل

نظم میں ربط و تسلسل ضروری ہے یعنی تمام مصرعے باہم مربوط ہونے چاہیے۔ نظم کا ہر ایک جزء دوسرے جزء کے ساتھ جڑا ہوا اور مربوط ہونا چاہیے۔ نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جس کے اردگر نظم کا پورا تانا بانا بنا جاتا ہے۔

عنوان: 

نظم کا ایک عنوان ہوتا ہے اور پوری نظم میں اسی عنوان یا موضوع پر اظہار خیال کیا جاتا ہے۔

حسن ترتیب

حسن ترتیب نظم کی امتیازی خصوصیت اور اس کی تخلیق کا ایک لازمی جزء ہے۔ الفاظ اور مصرعوں کی عمدہ ترتیب اور بندش ہی نظم کو دلفریب اورپر اثر بناتی ہے۔

اگر نظم میں الفاظ اور مصرعوں کی بندش اور انہیں سلیقے سے برتنے میں کمی رہ جائے گی تو نظم بے مزہ اور بے رنگ ہو جائے گی۔

رمزیت و اشاریت 

نظم میں ایک ہے موضوع پر تسلسل کے ساتھ اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ نظم میں غزل کی طرح بہت زیادہ اختصار نہیں ہوتا تاہم بیان میں رمزیت واشاریت ہوتی ہے۔ رمزہ کنائے کے پیرائے میں بیان ہوتا ہے جس سے شعری حسن پیدا ہوتا ہے۔

وضاحت بیان 

نظم میں بیان کے اعتبار سے تفصیل اور وضاحت ہوتی ہے۔ پوری نظم ایک ہی موضوع پر ہوتی ہے اس لیے نظم نگار اس میں موضوع کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

جزئیات نگاری 

نظم میں شاعر جزئیات نگاری سے کام لیتا ہے۔ طویل نظموں میں جزئیات نگاری زیادہ واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے ، لیکن مختصر نظموں میں جزئیات نگاری کی گنجائش اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ 

شعری آہنگ یا شعریت

شعریت کسی بھی شعری پیکر کی روح ہے۔ نظم میں شعریت ہونی چاہیے یعنی وہ جذبات کی شدت، والہا نہ کیفیت اور شعری آہنگ سے بھر پور ہو۔

وحدت تاثر

نظم میں شاعر کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ نظم میں اس طرح منظوم کرے کہ قاری کے ذہن پر ایک تاثر قائم ہو تا کہ اس میں شدت اور گہرائی ہو ۔ 

زبان و بیان

نظم میں ایسی زبان استعمال ہونی چاہیے جو قاری پر گہرا تاثر پیدا کرے۔ زبان و بیان فطری اور دلکش ہے۔ غزل کے مقابلے نظم میں صراحت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اشاروں کنایوں میں بات کہی جاتی ہے۔ رمزیہ اسلوب اور علامتی پیرائے اظہار کا استعمال کر کے اس میں تاثر اور تجسس پیدا کیا جاتا ہے۔ نظم کی زبان فطری ہو اور بیان میں تصنع نہ ہو۔

نظم کی اقسام

ابتدا میں منظوم کلام کو نظم سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ بعد میں نظم کو غزل کے مقابل ان تمام اصناف کے لیے استعمال کیا جانے لگا جو مسلسل اظہار خیال پر مبنی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب موضوع کے اعتبار سے نظم کی تقسیم کی جاتی ہے تو اس میں حمد ، مناجات ، نعت، منقبت مثنوی ، مرثیہ، قصیده، واسوخت و غیره سب آ جاتے ہیں۔ 

اشعار کی تعداد کے اعتبار سے بھی نظم کی تقسیم کی جاسکتی ہے مثلا ترکیب بند، ترجیع بند ، مستزاد، مسمط ، مثلث، مربع مخمس، مسدس مثمن متسع معشر وغیر ہ 

نظم میں زبان و بیان کے اعتبار بہت زیادہ تنوع ہے اور اس کی نشونما کے مختلف مراحل ہیں ، اس لیے مختلف اعتبار سے اس کی مختلف قسمیں ہو سکتی ہیں۔ جدید نظم کو عموما چار قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جدید نظم کی وہ مروجہ چار قسمیں مندرجہ ذیل ہیں:

پابند نظم

پابند نظم میں وزن اور بحر کے ساتھ قافیہ اور ردیف کی پابندی بھی کی جاتی ہے۔ نظیر اکبرابادی، حالی، اقبال، اکبر اور جوش وغیرہ نے پابند نظمیں لکھی ہیں۔ نظیر کے دور سے لیکر اقبال تک پابند نظم لکھنے کا ہی رواج تھا۔ نظیر کی آدمی نامہ، برسات کی بہاریں اور روٹیاں ، حالی کی مناجات بیوی اور مٹی کا دیا ، اکبر کی جلوہ دربار دہلی ، اقبال کی پرندے کی فریاد، جگنو اور جوش کی شکست زنداں کا خواب پابند نظمیں ہیں۔

 مثال کے طور پر اقبال کی نظم جگنو  دیکھیے:

جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

آیا ہے آسمان سے اڑ کر کوئی ستارہ

 یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آگے چمکا گمنام تھا وطن میں

آزاد نظم 

اس کے مصرعوں میں بحر کے ارکان کی تعداد ہر مصرعے میں متعین نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مصرعے چھوٹے بڑے ہو جاتے ہیں۔ ارکان کی کمی بیشی سے شعر میں ایک خاص قسم کا آہنگ پیدا کیا جاتا ہے۔ آزاد نظم کا پہلا تجربہ فرانس میں ہوا تھا۔ فرانسیسی سے یہ انگریزی ادب میں وارد ہوئی اور اور انگریزی سے اردو میں ۔ انگریزی میں یہ فری ورس کے نام سے مشہور ہوئی اور اردو میں بھی یہی اصطلاح رائج ہوگئی۔ آزاد نظم کے حوالے سے ن م را شد، تصدق حسین خالد نے ٹی ایس ایلیٹ اور اہژراپاؤنڈ کی شعری تحریک ( فری ورس ) سے متاثر ہو کر آزاد نظم کو اردو میں متعارف کیا ۔ مخدوم کی نظم ” چاند تاروں کا بن ” کا یہ بند آزاد بند کی عمدہ مثال ہے:

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن

رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن

تشنگی تھی مگر

تشنگی میں بھی سرشار تھے

پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے

منتظر مرد وزن

مستیاں ختم ، مدہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا با نکپن

معری نظم

 وہ نظم ہے جس میں قافیہ اور ردیف کی پابندی نہیں ہوتی مگر اس کے تمام اشعار اور مصرعے ایک ہی بحر اور وزن میں ہوتے ہیں یعنی مساوی ہوتے ہیں۔ ابتدا میں معری نظم کو غیر مقفی نظم کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا لیکن عبد الحلیم شرر نے مولوی عبدالحق کے مشورے سے نظم معری کی اصطلاح استعمال کی ۔ یوسف ظفر مجمور جالندھری، فیض، اختر الایمان، مجید امجد وغیرہ معری نظم کے اہم شاعر ہیں۔

نثری نظم

اس میں وزن، بحر ردیف اور قافیے کی پابندی نہیں ہوتی۔ اس میں ایک مرکزی خیال ہوتا ہے جسے تسلسل کے ساتھ چھوٹی بڑی سطروں میں بیان کر دیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ایک خاص آہنگ ہوتا ہے جو اس میں شعری عنصر پیدا کر دیتا ہے۔ سجاد ظہیر اور خورشید الاسلام نے نثری نظموں میں خاص طور سے طبع آزمائی کی ہے۔ 

نظم کا فن

نظم کی صنف ایک قدیم شعری صنف ہے جو دیگر اصناف شعر کے مقابلے پابندیوں سے بڑی حد تک آزاد رہی ہے۔ یہ ہیئت، اسلوب،موضوع اور بیان کے اعتبار سے وسعت رکھنے کی وجہ سے کار آمد صنف ہے۔ اردو شاعری کی روایت کی ابتدا سے ہی غزل کو اولیت اور اہمیت حاصل رہی جبکہ نظم کو شعرا نے وسعت بیان کے تقاضے کے مطابق ضرورتا استعمال کیا۔ ابتدا میں نظم کا کوئی واضح تصور نہیں تھا تا ہم اپنی فطرت کے لحاظ سے اس وقت کی مروجہ بیانیہ شاعری پر مبنی اصناف نظم کی ذیل میں ہی آتی ہیں۔ دوسری شعری اصناف کی طرح نظم نے بھی دکن میں اپنے ارتقا کے ابتدائی مراحل طے کیے۔ 

محمد قلی قطب شاہ کے دیوان میں بہت سی نظمیں ملتی ہیں۔ دوسرے دکنی شعرا نے بھی بیانیہ شاعری کے نمونے پیش کیے۔ اس کے بعد شمالی ہند میں آبرو، حاتم ، وغیرہ کے یہاں ایک عنوان کے تحت لکھی جانے والی نظمیں ملتی ہیں۔ نظیر کے دور تک آتے آتے نظم کا تصور واضح ہونے لگتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کو پہلا شاعر قرار دیا جا سکتا ہے جس نے نظم میں شاعری کے وسیع امکانات دریافت کیے اور اس صنف کو اظہار کا اہم ترین ذریعہ بنایا۔ نظیر نے اردو نظم گوئی کی روایت کی نہ صرف توسیع کی بلکہ اس روایت کو مکمل اور مستحکم بھی کیا۔

 1857 کے بعد ہندوستانی سماج میں غیر معمولی تبدیلی واقع ہوئی۔ زبان وادب ، نظام تعلیم اور فکروفن گویا انسانی زندگی اور سماج کے ہر گوشے میں تبدیلی عمل میں آنے لگی۔ زندگی اور اس کے تقاضے بدلنے لگے جس کے ساتھ ساتھ ادب بھی اپنا قالب بدلنے لگا۔ 

انیسویں صدی کے نصف آخر میں سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ادبی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہوا۔ زبان و ادب اور نظام تعلیم کے اس تغیر کو سرسید اور ان کی تحریک نے مزید تیز رو کر دیا اور اس میں اہم کردار ادا کیا۔ شاعری میں سرسید اور علی گڑھ تحریک کے زیر اثر حالی ، آزاد، شبلی اور اسماعیل میرٹھی وغیرہ نے نظم جدید کے طور پر نظم کا احیاء کیا اور نظم کو فطری ذریعہ اظہار کے لیے سب سے کار آمد صنف قرار دیا۔

اردو شاعری میں صنف نظم نے ایک طویل سفر طئے کیا اور اس کے بعد وہ ایک با قاعدہ صنف سخن کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہی۔

اردو شاعری میں نظم کو نمایاں اہمیت حالی اور آزادی کی تحریک نظم جدید نظم زیر اثر حاصل ہوئی۔ نظم نظر انداز کی ہوئی ایک غیر معروف اور دوئم درجے کی صنف کی حیثیت سے انحراف کر کے ایک ممتاز اور مرکزی صنف شاعری کی حیثیت اختیار کر گئی۔ حالی اور آزاد نے سرسید کے اصلاحی نظریات سے متاثر ہو کر ادب میں ان نظریات سے استفادہ کر کے نظم جدید کی تحریک کی بنیاد ڈالی۔ حالی اور آزاد کے ساتھ اسماعیل میرٹھی جو انہیں کے ہم عہد تھے، نے بھی نظم جدید کو مقبول عام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالی ، آزاد اور اسماعیل میرٹھی نے نیچرل اور قومی نظموں کے عملی نمونے پیش کیے۔ مسدس حالی، مناجات بیوہ اور مثنوی صبح امید جیسی شاہکار نظمیں تخلیق ہوئیں اور نظم گوئی کا رجحان اتنا مقبول عام ہو گیا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہی نظم اردو شاعری میں سب سے مقبول صنف بن گئی اور حالی و آزاد سے شروع ہونے والی اس روایت نے نظم کو اس قدر جلا بخشی کہ نصف صدی میں اقبال ، جوش، فیض ، ن م راشد اور اختر الایمان جیسے نظم کے شہرہ آفاق شعر منظر عام پر آئے اور اس کے افق کو روشنی سے ہمکنار کیا۔ 

اقبال نے نظم میں فکر و فلسفہ کی آمیزش کر کے اسے بے حد معتبر اور سنجیدہ طرز اظہار عطا کر دیا:

اقبال نے اردو نظم گوئی کو اپنی نظلموں کے ذریعہ فکری بلندی اور وسعت بیان عطا کیا۔ حالی اور آزاد کے زیر اثر نیچرل شاعری پر یعنی نظمیں لکھی جاتی رہیں، اس دوران رومانی نظمیں بھی لکھی گئیں، اقبال جلوہ گر ہوئے مگر پھر حالات بدلے اور انقلاب فرانس کے بعد عالمی سطح پر آزادی اور انقلاب کی تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کیا تو اردو شاعری میں نظم مزدوروں ، مظلوموں اور باغیوں کی آواز بن گئی۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر نظم نے بے انتہا ترقی کی ۔ فیض، مجاز ، جوش ، سردار جعفری ، اختر الایمان اور جاں نثار اختر جیسے شاعروں نے نظم کو سماجی حیثیت بخشی، انقلاب اور بغاوت بھرے جذبات سکھائے اور نیا انداز اور آہنگ دیا۔ نظلموں میں انقلاب ، بغاوت، آزادی ، عدم مساوات ، غریبوں و مزدوروں کی حمایت ، طبقاتی کشمکش اور دیگر سماجی و سیاسی مسائل کا بیان شدت جذبات کے ساتھ ہوتا ہے۔ 

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *