نانوتہ تاریخ کے آئینے میں

نانوتہ کب آباد ہوا اسکی صحیح تاریخ نہیں ملتی۔ کہا جاتا ہے کہ تقریبا آٹھ نوسوسال پہلے نانو نام کے کسی گوجر یا جاٹ کے نام پر یہ بستی آباد ہوئی تھی۔

نانوتہ کی تاریخ مولانا مناظر احسن گیلانی کی نظر میں

مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک روایت تاریخ سہارنپور لالہ نند کشور (مطبوعہ باندہ) کے حوالہ سے نقل کی ہے اور یہی جغرافیہ ضلع سہارنپور مرتبہ ذاکر بیگ نانوتوی ص ۲۲ ( سہارنپور قبل از ۱۹۱۰ء) میں لکھا ہے مگر مولانا کو یہ وجہ تسمیہ پسند نہیں، فرماتے ہیں کہ : میرے نزدیک یہ وجہ تسمیہ افواہی روایات چنداں دلآویز نہیں معلوم ہوتی “ (سوانح قاسمی حاشیہ ص ۵۲ ج ۱) مگر مولانا کا یہ ارشاد بے محل ہے، کیوں کہ اس دور کی آبادیوں اور مقامات کے نام عموماً اسی طرح کے ہوتے تھے، اس میں دل آویزی اور پسندیدگی عوام کا خیال ہی نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ اس طرح کی اکثر آبادیوں اور بستیوں کے نام با قاعدہ رکھے اور طے نہیں کئے گئے، بلکہ کسی جگہ چھوٹی موٹی آبادی ہوگئی اور عوام کی زبان پر اس کا ایک نام آگیا، وہی چل گیا اسی کو عام شہرت اور مقبولیت ہو گئی۔

 اگر یہ روایت ( مولانا مناظر احسن گیلانی کی روایت ) صحیح ہے تو یہ بستی دہلی میں مسلم حکمرانی کے ابتدائی دور (ایبک یا التمش کے عہد ) کی یادگار ہے، مگر اس وقت اسکی کیا حیثیت تھی ، کس قدر آبادی تھی اور اسکی آبادی کی کیا وجہ تھی، کچھ معلوم نہیں ۔ غالبا یہ کسی مقامی سردار یا رئیس (نانو ) کی گڑھی تھی جس کی آبادی آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور جس نے ایک مشترک بستی یا قصبہ کی شکل اختیار کر لی ۔ اور نویں صدی ہجری تک اس آبادی کی ایک قابل ذکر قصبہ کی حیثیت تھی ۔

 نانوتہ کے متعلق جو قدیم اور مختصر معلومات دریافت ہیں انکا خلاصہ یہ ہے کہ ۸۰۱ھ (۱۳۹۹ء) میں تیمور نے اس علاقہ کا خونی سفر کیا اور قتل و غارت گری کرتا ہوا یہاں سے گزرا، ۸۱۷ھ (۱۴۱۴ء) میں سلطان خضر خان نے سہارنپور کا علاقہ سید سالم کے تصرف میں دیدیا تھا، ان لوگوں نے حکومت اور عدالت کے بڑے عہدوں پر تیزی سے اپنا رسوخ بڑھایا۔

مولانا نور الحسن کاندھلوی فرماتے ہیں کہ میری معلومات میں نانوتہ کا پہلا با قاعدہ ذکر ابوالفضل نے اپنی مشہور کتاب آئین اکبری میں کیا ہے۔

اکبر بادشاہ کے دور میں علاقہ کی معاشی اور انتظامی ترتیب و تقسیم میں ، سر کار سہارنپور کے ماتحت ۳۶ پر گنوں میں سے ایک پر گنہ نانو تہ بھی تھا، ابوالفضل نے لکھا ہے: ’’سرکار سہارنپور سی وشش محل، چهار دستور ، دیو بند و غیره بست و شش پرگنه، یک دستور’’

 اس عنوان کے تحت دیوبند اور سہارنپور کے ساتھ نانوتہ کا بھی ذکر ہے۔ دوسری جگہ پر اس کی کچھ تفصیل بھی لکھی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:

 اس پرگنہ کا آباد رقبہ جس میں کاشتکاری ہوتی تھی انتیس ہزار دو سو چوبیس (۲۹۲۲۴) بیگھے پر مشتمل تھا، اور سائرات وغیرہ کی زمین آباد رقبہ سے بہت زیادہ تھی ، دستور کے مطابق اس پرگنہ میں بھی حکومت کی طرف سے چالیس سوار اور تین سو پیادے مقرر تھے، جو عموما افغان تھے۔

اس وقت سے اکبر بادشاہ کے دور حکومت تک اس علاقہ کا نظام رقبہ اور تقسیم و ترتیب اسی طرز پر رہی جو ۸۱۷ھ (۱۴۱۴ء) کے بعد قائم ہوئی تھی ، اکبر کے زمانہ میں یہ علاقہ صوبہ دہلی کے ماتحت آیا، جسکے چھتیں پر گنے تھے ، ان پر گنوں میں سے پندرہ پرگنے موجودہ ضلع مظفر نگر کے تھے۔ 

ابو الفضل نے آئین اکبری میں ان پر گنوں کی تفصیل لکھی ہے، مغلوں کے دور شباب تک یہ نظام اسی طرح قائم رہا، اورنگ زیب عالمگیر کے بعد جب مغل اقتدار میں ابتری آئی اس وقت یہاں کے حالات بھی خراب ہو گئے تھے اور یہ علاقہ جس میں نانوتہ بھی شامل ہے کئی مرتبہ ظالم حملہ آوروں کے حملوں کی وجہ سے بر باد و تاراج ہوا تھا، کبھی اسکو جاٹوں گوجروں نے لوٹا، کبھی سکھوں کے حملوں کی زد میں آیا، کبھی مرہٹوں کا نشانہ بنا، غرض اس کو پچاس سال کے قلیل وقفہ میں کئی مرتبہ بیرونی حملہ آوروں اور ظالم و بے حس طالع آزماؤں کے جبر و تشدد کی وجہ سے خاک و خون میں نہانا اور آتش زنی کا شکار ہونا پڑا۔

نانو تہ چھوٹی سی بستی اور معمولی آبادی کا رقبہ تھا، یہاں کے رہنے والے بار بار آنے والی ان مصیبتوں اور تباہیوں کی تاب نہ لاسکے، جو لوگ با حیثیت تھے اور اسکی گنجائش رکھتے تھے کہ دوسری جگہ جا کر اپنی رہائش اور معاش کے وسائل کا انتظام کر سکیں وہ نانوتہ سے ترک وطن کر کے چلے گئے تھے ، غریب و بے کس افراد میں سے بھی کچھ اپنے والیان نعمت کی خدمت کا سہارا لے کر انکے ساتھ ہو گئے اور جو افراد یہاں رہ گئے وہ کمزور و بے مایہ تھے ، جسکی وجہ سے اس بستی کی رونق اور تازگی ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئی۔ اہل دولت و ثروت کے اچانک بستی سے چلے جانے کی وجہ سے انکی بڑی بڑی حویلیاں اور ڈیوڑھیاں ویران ہو گئیں، اچھے اچھے رئیس اپنے آباد گھر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے ۔

 مکانات موجود تھے مگر سنسان ، ہر وقت ایک سناٹا اور ویرانی سی رہتی تھی ، جسکی وجہ سے اورتو اور خود اس قصبہ کے رہنے والے بھی اسکو پھوٹا شہر کہتے تھے ۔

 حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے بھی اپنے ایک خط میں اسکو اسی شہرت سے یاد کیا ہے۔

 اور جغرافیہ ضلع سہارنپور کے مؤلف ماسٹر ذاکر بیگ نانوتوی نے بھی یہی لکھا ہے ،

تحریر ہے:

‘’بہت سے کہنہ مکان منہدمہ غیر آباد پڑے ہوئے ہیں ، اس وجہ سے اسکو پھوٹا شہر کہتے ہیں’’

انگریزوں کی عملداری کے بعد اگرچہ لوٹ مار کے یہ قصے ختم ہو گئے تھے مگر نانوتہ کی پرانی بہار اور آبادی کی شادابی کبھی واپس نہیں آئی، جناب ظ انصاری نے جن کی ننہیال نانوتہ میں تھی اور ان کا بچپن بھی وہیں گزرا ہے، اپنے بچپن کے مشاہدات کا اور نانوتہ کے کھنڈرات اور ویرانی کا اس طرح ذکر کیا ہے:

 پھوپھی مجھے ماں سے زیادہ پیاری تھیں، سہارنپور کے اجڑے قصبے نانوتہ میں رہتی تھیں، رام پور، نانوتہ، تھانہ بھون ، جلال آباد، کاندھلہ، کیرانہ، یہ مسلم زمینداروں کی گڑھیاں تھیں ، جمنا کے کنارے کبھی انھوں نے سرحدی چھاؤنیوں کا کام کیا ہوگا، پنجاب کی سرکشی ( سکھ خالصہ تحریک) اور فوجی یلغار کا نشانہ بنتی رہیں ۔ نانو تہ تو سرہند کی طرح اینٹ مٹی کا ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ خون اور خاندان کی حفاظت کرنیوالے چند سید زادے اور پیر زادے اب تک وہیں پڑے تھے، ساہوکاروں کے مقروض، علم اور حوصلہ سے معذور ، انہیں میں سے ایک معزز سید خاندان میں میری پھوپھی بیاہی گئیں۔ بیوگی کی پہاڑ سی زندگی انھوں نے کچھ بھائی کی مدد سے کچھ اپنے سگھڑپن سے عزت آبرو کے ساتھ بسر کی اور پانچ بچے پال کر بڑے کر دیئے ، مجھے اپنے ددھیال کا سیدھا سچا گنوار پن ، کھردرا لہجہ، بے تحاشا پیار بھونڈے اطوار، ٹوٹے پھوٹے کھنڈر مکان، اپنی ننہیال کے نستعلیق طور طریقوں سے، بریلی اور لکھنو کے شہری رکھ رکھاؤ سے نمائشی سلیقے سے کہیں زیادہ پسند تھے۔

یہ پورا علاقہ ۱۸۰۳ء (۱۳۱۸ھ ) دہلی پر (جنرل) قبضہ کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر انتظام آ گیا تھا، اس وقت تک سهارنپور کو اس علاقہ کی انتظامی تقسیم میں بنیادی حیثیت حاصل تھی اور موجودہ ضلع میرٹھ و مظفر نگر کا خاصا حصہ سہارنپور کا ماتحت تھا، مگر اس علاقہ اور کول (علی گڑھ) وغیرہ کے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مقبوضات میں شامل ہونیکے بعد اس پورے خطہ کی ایک نئی تشکیل عمل میں آئی، اسکو کئی حصوں یا اضلاع میں تقسیم کر کے ابتدائی طور پر اسکا انتظام ریزیڈنٹ (Resedent) کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ ۱۸۲۴ء تک یہی نظام چلتا رہا ، اس میں کوئی بڑی انتظامی تبدیلی نہیں ہوئی ، جب ۱۸۲۴ء میں مظفر نگر کو مکمل ضلع کی حیثیت دی گئی، اس وقت سہارنپور کے نانوتہ پرگنہ کے بہت سے گاؤں ضلع مظفر نگر میں شامل کر دیئے تھے۔

 ۱۸۴۲ء میں اس تقسیم میں ایک تبدیلی اور ہوئی، پرگنہ نانوتہ کے متعدد دیہات گنگوہ اور رام پور میں شامل کئے گئے اور سو سے زائد دیہات مظفر نگر کو دے دیئے گئے ، اس طرح نانوتہ کی پرگنہ کی حیثیت ختم ہو گئی۔

نانوتہ میں ۱۹۰۵ء ( ۲۳-۱۳۲۲ھ ) میں میونسپل نظام قائم ہوا ، ۱۹۱۱ء میں پولیس کا محکمہ قائم کیا گیا تھا، مگر بعد میں کچھ جگہوں کے پولیس تھانے ختم کر دیئے گئے، جن میں نانو نہ تھانہ بھی شامل تھا۔

نانوتہ میں پرانے زمانہ سے پنچایت کا نظام قائم تھا، جس کی ۱۸۱۶ء میں تجدید کی گئی تھی ، ۱۸۶۰ء میں ضلع سہارنپور کے اٹھارہ مقامات پر ترقیاتی اسکیم جاری کی گئی اس کا صدر مقام نانو تہ تھا۔

 ۱۹۱۴ء میں نانوتہ کو ٹاؤن ایریا ( Tawn area) قرار دیا گیا۔ اور ۱۹۷۳ء میں نو ٹیفائڈ ایریا ( Notifid area) بنا دیا گیا۔ اس وقت نانوتہ کا رقبہ ۲ کلومیٹر مربع تھا۔

 نانوتہ کی مردم شماری جو ۱۸۶۵ء میں چار ہزار آٹھ سوستاسی (۴۸۸۷) تھی ۱۹۷۱ء میں سات ہزار نو سو پینسٹھ (۷۹۶۵) ہو گئی تھی۔ یعنی ایک سو پانچ سال کے طویل عرصہ میں صرف تین ہزار بیاسی (۳۰۸۲) نفوس کا اضافہ ہوا تھا۔

 

روزانہ دلچسپ واقعات اور تاریخوں سے واقف ہونے اوردل کو تازگی بخشنے کے لئے ہم سے جڑے رہیں۔

واٹس ایپ چینل ( فلاح ملت ) لنک

Click here

جزاکم اللہ احسن الجزاء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare