نانوتہ کے دو ممتاز خاندان
نانوتہ میں مسلمان کس دور میں آئے اور یہاں مسلمانوں کے آنے اور آباد ہونے کا کیا سبب ہوا، اس کا ذکر نہیں ملتا ، مگر قدیم زمانہ سے نانوتہ میں مقیم پرانے خاندانوں میں سے دو خانوادے بطور خاص معروف ہیں، ایک سادات کا، دوسر ا صدیقی شیوخ کا۔
یہ دونوں خاندان کئی نسلوں بلکہ صدیوں تک معرفت وارشاد میں ممتاز اور علم و تربیت میں نامور رہے، مغلوں کے ابتدائی عہد میں خاندان سادات کے اصحاب اوج کمال پر پہنچے اور مغلوں کے دور واپسیں میں صدیقی گھرانہ پر بہار آئی۔
نانوتہ کے چند قدیم نامور جلیل القدر مشائخ اور اہل کمال
سادات یہاں کب وارد ہوئے تھے اس کی تفصیل نہیں ملی مگر اکبر کا دور حکومت اس خاندان کے عروج و شہرت کا دور تھا، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ خاندان دسویں صدی ہجری سے پہلے اس بستی میں آباد تھا۔ اکبر کے دور حکومت میں نانوتہ کے ایک صاحب ارشاد و معرفت بزرگ سید احمد مدنی علم و عرفان کے حلقوں میں نامور اور مرجع خلائق تھے، سید احمد کے صاحبزادہ سید مصطفیٰ نانوتوی بھی روحانی معنوی کمالات کے جامع اور والد کی مسند ارشاد کے وارث تھے۔ اس خانوادہ سے وابستہ متاخر علماء اور اہل معرفت میں مولانا سید صابر علی ، مولانا سید شاہ غلام محمد نانوتوی کے نام ملتے ہیں ۔ گیارہویں صدی ہجری کی ایک با کمال شخصیت شیخ جیون نانوتوی بھی تھے، رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
ان بزرگوں کے حالات اور ان کی دینی علمی خدمات کی تفصیل کمیاب ہے مختلف تذکروں میں اجمالی ذکر ملتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کا اپنے عہد کی دینی تاریخ اور علمی و اصلاحی خدمات میں خاص حصہ رہا ہوگا، جو مختصر بلکہ مجمل معلومات دستیاب ہیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔
مولانا شیخ احمد مدنی یا سید احمد نانوتوی
دسویں صدی ہجری کے مشائخ کبار میں شیخ سید احمد نانوتوی کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، کلمات الصادقین کے مؤلف محمد صادق ہمدانی کشمیری دہلوی نے ( جو حضرت خواجہ باقی باللہ وفات ۱۲ ۱۰ ھ کے مرید اور فیض یافتہ ہیں) ان بزرگ کو سید احمد نانوتوی سے یاد کیا ہے اور ہمدانی کے ہم عہد ایک اور نامور تذکرہ نگار، محمد غوثی شطاری مانڈوی نے گلزار ابرار ( مؤلفہ ۱۰۱۴ ھ ) میں شیخ احمد مدنی نام لکھا ہے، دونوں ہی تذکرہ نگاروں نے شیخ احمد نانوتوی کا بہت محبت اور احترام کیساتھ ذکر کیا ہے ، خصوصاً صادق ہمدانی کے الفاظ عقیدت و محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں، دونوں کی کتابوں سے سید احمد نانوتوی کے متعلق مفید اور علیحدہ علیحدہ اطلاعات ملتی ہیں، شیخ احمد نانوتوی ، شیخ سلیمان بن عفان مانڈوی دہلوی رحمہم اللہ (وفات ۱۵۳۷ء) کے خلیفہ اعظم تھے ، غوثی شطاری مانڈوی نے لکھا ہے کہ:
ایک موضع نانوتہ ہے میان دو آبہ، وہاں گوشہ گزیں تھے شیخ سلیمان منڈوالہ کے خلیفہ خاص ہیں، آپ کو سلوک و جذب دونوں مرتبہ تھے، مشہور سلسلوں کے طریقوں پر قدم استحکام کے ساتھ جما ہوا تھا۔
اور صادق ہمدانی کشمیری کے پُر از محبت الفاظ ملاحظہ ہوں:
فرزاندان معنوی حضرت شیخ مانڈوی (سلیمان قدس سره ) بسیار اند که سلسله ولایت ایشاں را بر پائے دارند ، اکمل و افضل ایشاں حضرت سید احمد نانوته قدس سره بوده اند که در جذب طالبان یگانه روزگار و در کشف و کرامات نظیر نداشتند ، و امروز آثار و برکات ایشاں از فرزندان و طالبان ایشاں ظاهر است۔ نشاط عشق و محبت سوز وگداز ، ذوق و سماع در طینت این بزگواراں فخراست، و مهربانی بر خلق الله خصوصاً بر فضلاء ، وصلحاء از لازمہ فطرت ایں جماعت است۔ حق سبحانه سالها بسیار ایشاں را بر جاده آباء کرام خود ثابت و مستقیم دارد
ترجمه : اور حضرت شیخ (سلیمان مانڈوی) کے معنوی بیٹے بہت ہیں ، جو انکے سلسلہ کو قائم رکھے ہوئے ہیں ان میں سب سے بہتر اور کامل حضرت احمد نانوتوی تھے ، قدس سرہ، کہ جو طالبان معرفت کے رجوع ( اور اصلاح و تربیت ) میں نادر روزگار تھے اور کشف و کرامات میں بھی اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت ( بھی ) انکی قوت تاثیر اور برکات ان کے بیٹوں اور ان سے استفادہ کرنے والوں کے ذریعہ سے ظاہر ہیں۔
عشق و محبت کا سرمایه سوز و گداز ذوق و سماع ان بزرگوں کی طبیعتوں میں گندھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق خصوصاً علماء اور نیک لوگوں پر عنایت و کرم اس جماعت کے اصحاب کی طبیعت کا خاص جوہر ہے ۔ حق تعالی (انکو ) برسہا برس اور زمانہ دراز تک اپنے بڑوں کے طریقہ پر ثابت قدم اور جماہوا رکھے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صادق ہمدانی اور غوثی شطاری دونوں ہی سید احمد نانوتوی کے فرزندان اور تربیت یافتہ اصحاب کو دیکھنے جاننے والے ہیں، خصوصاً غوثی شطاری شیخ سلیمان کے پوتے شیخ کمال سے ذاتی طور سے واقف ہے، لکھا ہے:
چند روز ہوئے کہ بنا چاری سپاہیانہ طریقہ اختیار کر لیا ہے۔
غوثی شطاری مانڈو کا رہنے والا ہے اور علماء و مشائخ سے عقیدت و محبت رکھنے والا اور انکا ہم نشیں ہے، اسلئے اسکی یہ اطلاع درست ہوگی کہ سید احمد مدینہ منورہ کے رہنے والے (مدنی) اور شیخ سلیمان مانڈو کے خلیفہ تھے ۔ ہمدانی کے اندراج سے غوثی شطاری کی اطلاع پر یہ اضافہ ہو رہا ہے کہ شیخ احمد مدنی نانوتوی مریدوں کو توجہ دینے میں یکتائے روزگار تھے۔ اور کشف و کرامات میں بے مثل تھے اور مذکورہ دونوں مصنفوں ( شطاری و ہمدانی ) کے عہد تک سید احمد نانوتوی کی روحانی تربیت و تاثیر کے اثرات انکے متوسلین اور اولاد میں موجود تھے۔
شیخ احمد مدنی نانوتوی شیخ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے نانو تہ رہتے تھے یا بعد میں تشریف لائے تھے، اس کا علم نہیں ، مگر بعض قرائن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس سلسلہ کے اصحاب کمال کی نظر میں اس خطہ ( دو آبہ سہارنپور و مظفر نگر ) کی کچھ خاص اہمیت تھی اور وہ تبلیغ و ارشاد نیز اصلاح و تربیت اور یکسوئی کیلئے اسکو پسند کرتے اور مفید سمجھتے تھے اور سلاسل کے چند اکابر واصحاب ارشاد کے علاوہ شیخ عثمان مانڈوی سے وابستہ جو دوسرے بزرگ یہاں تشریف لائے وہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی (وفات ۹۸۲ ھ ) ہیں، شیخ عبدالقدوس شیخ سلیمان کی خدمت میں عرصہ تک حاضر رہے، استفادہ کیا اور شیخ سلیمان سے قرآن شریف اور تجوید پڑھی تھی۔ اس لئے ممکن ہے کہ شیخ عبدالقدوس کی اس نواح میں تشریف آوری کا ایک سبب شیخ عبدالقدوس کے سید احمد نانوتوی سے مراسم اور روابط رہے ہوں۔
سید احمد مدنی اور انکے صاحبزادے سید مصطفیٰ کے مزارات نانوتہ میں صدیوں تک معروف رہے، نانوتہ میں سید احمد مدنی کے مدفن کو دادا میرانجی کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔