مولانا روم کے والد اور بادشاہ کا واقعہ
مولا نا روم کے والد اپنے زمانہ کے بڑے پایہ کے بزرگ تھے۔ ان کی خدمت میں بادشاہ وقت بھی آتا تھا۔
جب بادشاہ وقت نے دیکھا کہ مجلس کا عجیب حال ہے کہ وزیر اعظم بھی وہاں موجود ہے، اور دوسرے اور تیسرے نمبر کے وزراء بھی وہاں موجود ہیں اور سلطنت کے بڑے بڑے حکام و سرکردہ لوگ سارے وہاں موجود ہیں۔ اور دوسری طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو بڑے بڑے تاجر بھی وہاں موجود ہیں اور تیسری طرف دیکھتے ہیں تو علماء اور صلحاء بھی وہاں بیٹھے ہیں تو بادشاہ کو حیرت ہوئی کہ میرے دربار میں تو یہ لوگ آتے نہیں ہیں اور ان کے یہاں اس شان اور اتنی قدر کے ساتھ آکر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہر ایک کی صورت سے سراپا محبت اور عظمت ٹپک رہی ہے اور ان کی بزرگی سب پر چھائی ہوئی ہے۔
تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد بادشاہ کو بجائے حیرت کے غیرت پیدا ہونا شروع ہو گئی تو بادشاہ نے یہ تدبیر سوچی کہ ان کو مال اور خزانہ میں پھانس دیا جائے۔
چنانچہ یہ کہہ کر ان بزرگ کے پاس خزانہ کی کنجیاں بھیج دیں کہ میرے پاس اور کچھ تو رہا نہیں سب آپ کے پاس ہے پس خزانہ کی کنجیاں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔
رومی کے والد صاحب نے کنجیاں یہ کہہ کر واپس کر دیں کہ آج بدھ کا دن ہے اور کل تک مجھے مہلت دیجئے۔ پرسوں جمعہ ہے میں جمعہ کی نماز پڑھ کر آپ کا شہر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ سب چیزیں آپ کو مبارک ہوں۔
یہ خبر لوگوں کے درمیان اُڑ گئی تو وزیروں کی طرف سے استعفیٰ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک وزیر کا استعفیٰ آیا پھر دوسرے کا آیا پھر تیسرے کا آیا کہ جب حضرت یہاں سے جارہے ہیں تو ہم بھی جارہے ہیں۔
شہر کے جو بڑے معزز باوقار لوگ تھے وہ بھی چلے جانے کے لئے تیار ہو گئے جب بادشاہ نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا کہ اگر یہ سب چلے جائیں گے تو شہر کی جان اور شہر کی روح نکل جائےگی اور شہر کی جتنی رونق ہے سب ختم ہو جائے گی۔
اس لئے خود حاضر ہو کر مولانا رومی کے والد سے معافی مانگی کہ مجھ سے گستاخی ہوگئی میں معافی چاہتا ہوں، آپ یہاں سے تشریف نہ لے جائیں۔
یہ سب اس لئے ہوا کہ مولانا روم کے والد محترم نے ہر چیز کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مقابلہ میں قربان کر دیا تھا، اس کے نتیجہ میں اللہ نے ہر چیز کے دل میں ان کی محبت پیدا فرما دی تھی اور اللہ نے ان کو کامل ولایت عطاء فرمائی۔
مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ ( جو میرے دوست سے دشمنی رکھتا ہے میں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں) کا پورا منظر نظر آرہا تھا۔