محمد بن قاسم کا راجہ داہر کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ
دیبل کے بعد سب سے بڑا اور فیصلہ کن معرکہ راجہ داہر سے ہو ا، راجہ داہر سندھ کا اصل حکمراں تھا، یہ ایک متعصب برہمن زاد تھا، اس نے بدھ مت کے پیروکاروں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے اور بزور طاقت ان کو مٹانے کا ارادہ کر لیا تھا، انہیں مظلوموں میں جاٹ اور لوبان قومیں تھیں جن کو ذلیل ورسوا کرنے کے لئے راجہ داہر کے باپ نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ ریشم ، مخمل اور شال نہیں استعمال کر سکتے اور انہیں اصل تلوار کے بجائے مصنوعی تلوار رکھنے کا حکم دیا تھا، سندھ کے یہ سبھی مظلوم افراد مسلمانوں سے مدد کے طالب تھے۔
راجہ داہر سے مقابلہ کا وقت اس وقت آیا جب محمد بن قاسم کے پاس سامان رسد ختم ہو چکا تھا، یہاں تک کہ گھوڑوں کو کھلانے کے لئے چارہ تک بھی میسر نہ تھا، مسلمان گھوڑوں کا گوشت کھانے پر مجبور تھے ، لشکر میں بیماریاں بھی پھیل رہی تھیں، محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف سے مدد طلب کی، لیکن مقابلہ کا وقت آچکا تھا، مسلمانوں نے شوق جہاد میں ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنے لئے خود کو تیار کر لیا، لہذا محمد بن قاسم دریا، سندھ تک جا پہونچا، دریا عبور کرنا بڑا مشکل کام تھا، لیکن راجہ مو کا جو پہلے ہی محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کر چکا تھا اس کے تعاون سے یہ کام کافی آسان ہو گیا، جنگ کے آغاز سے پہلے محمد بن قاسم نے فوجیوں کو ذکر و استغفار کی طرف ابھارا، اس نے فوجیوں کو مخاطب کیا اور کہا: اے مسلمانوں کثرت سے استغفار کرو۔ اللہ نے مسلمانوں کو دو بہت اہم چیزیں عطا کی ہیں، اول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود دوسرا استغفار ، لہذا کثرت سے اللہ کا ذکر کرو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو تاکہ اللہ تعالی تمہیں غلبہ عطا کرے، اور دشمن پر تمہیں مسلط کر دے، راجہ داہر مسلم لشکر کی ان تمام فتوحات کو حقیر سمجھتے ہوئے غفلت میں پڑا رہا۔ جب محمد بن قاسم نے دریائے سندھ عبور کر لیا تب راجہ داہر بھی اپنی فوج لے کر میدان جنگ میں آگیا، محمد بن قاسم نے فوج کو منظم انداز میں تعینات کیا، گھڑ سواروں کا ایک دستہ منتخب کیا، مروان بن اشحم اور تمیم بن زید کو امیر مقرر کیا، اور انہیں حکم دیا کہ دشمنوں کی فوج پر پیچھے سے حملہ کریں۔
یہ ایک فیصلہ کن معرکہ تھا، میدان جنگ میں راجہ داہر ہاتھی پر سوار تھا اور اس کے آس پاس بھی ہاتھیوں کا ایک گھیر اتھا، وہ اس کے چاروں طرف اس طرح سے کھڑے ہوتے تھے کہ کسی دشمن کی رسائی اس تک ممکن نہ لگ رہی تھی، مسلمانوں کے گھوڑوں نے جب فیل بانوں کا یہ لشکر دیکھا تو ان کے اعضاء بدن لرزنے لگے ،
دوسری طرف ہیبت ناک فیل بانوں نے جب ان گھڑ سواروں کو دیکھا تو محسوس ہوا که ان دیو قامت گھوڑوں نے اپنی کمر پر جنوں جیسے انسان اٹھائے ہوئے ہیں، بہر کیف ہاتھیوں کی چنگھاڑ نے گھوڑوں کی ہنہنانے والی آوازوں کو دبا لیا پھر مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اس زور سے حملہ کیا کہ دشمن دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، مسلمان آگے پیچھے دونوں طرف سے حملہ کرنے لگے اور ان پر زبر دست خوف وہر اس طاری ہو گیا۔
غرض دونوں لشکر بڑی بے جگری سے لڑے ، شدید ترین جنگ ہوئی، کئی دنوں تک یہ جنگ جاری رہی، آخری دن سخت معرکہ ہوا شام تک لڑائی جاری رہی، تیر اندازوں نے اپنے تیروں میں آگ لگا کر فیل بانوں اور ہو دجوں پر حملہ کیا، ایک تیر راجہ داہر کے ہودج پر بھی لگا، ہودج میں آگ لگ گئی ، فیل بان ہاتھی کو قابو میں نہ رکھ سکا، اور ہاتھی راجہ داہر کو لے کر بھاگا اور پانی میں گر گیا، ایک بہادر ہیرو نے اس زور سے تلوار ماری کہ تلوار سر کو چیرتے ہوئے کمر تک اتر گئی، راجہ کے موت کی خبر سنتے ہی بقیہ فوج شکست تسلیم کرتے ہوئے بھاگ کھڑی ہوئی، مسلمانوں نے راور قلعہ تک اس کا پیچھا کیا ، اس طرح 93ھ رمضان المبارک کے مہینہ میں سندھ کی فتح پر آخری مہر ثبت ہو گئی، سبھی نے اللہ کا شکر ادا کیا، محمد بن قاسم نے سبھی کو امان دی، اور حجاج کے پاس فتح کی خوشخبری بھیج دی۔
راور شہر
راجہ داہر کی شکست کے بعد اس کا بیٹا جئے سنگھ اور اس کی بیوی رانی بائی فرار ہو کر راور شہر کے قلعہ میں پناہ لی، جئے سنگھ کو اپنی جوانی اور قوت پر بڑا غرور تھا، باپ راجہ داہر کی موت نے بھی اس کی ہمت کو نہیں توڑا اور دوبارہ حملہ کرنے کی ٹھانی، فوج اکھٹا کرنی شروع کی اور ارادہ کیا کہ راور کے قلعہ ہی سے مسلم فوج کا مقابلہ کیا جائے، لیکن اس کے وزیر سی ساگر نے اس وقت مقابلہ کرنا صحیح نہیں سمجھا، اور جئے سنگھ کو مشورہ دیا کہ یہاں پر مقابلہ کرنا صیح نہیں بلکہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے شہر برہمن آباد پہونچیں اور وہاں سے مقابلہ کیا جائے، لہذا وہ اپنے تمام ہی لاؤ لشکر لیکر وہاں سے نکل گیا، لیکن راجہ داہر کی بیوی رانی بائی نے اس کی مخالفت کی اور وہیں رہ کر مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے پندرہ ہزار کا لشکر بھی موجود تھا، محمد بن قاسم کو جب اس کا علم ہوا، وہ اپنے لشکر کو لے کر آگے بڑھا، اور راور شہر کا محاصرہ کر لیا، منجنیقوں سے شہر کی دیوار توڑنی شروع کر دی، ہر جانب سے تیر اندازوں نے تیر برسانا شروع کر دیا، داہر کی رانی کو جب شکست واضح طور پر دکھنے لگی اور عربوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے خود کو اور اپنی کنیزوں کو مع قیمتی سامان اور نفیس تحائف سب کچھ جلا ڈالا، پھر باقی باقی سبھی نے ہتھیار ڈال دئے اور بہ آسانی مسلمانوں نے اس شہر کو بھی فتح کر لیا۔
برہمن آباد کی فتح
راجہ داہر کی شکست کے بعد جن بڑے شہروں میں سے چند ایک نے مزاحمت دکھائی ان میں ایک برہمن آباد بھی تھا، یہ شہر سندھ کا ایک تاریخی شہر ہے ، تمام شکست خوردہ متفرق لشکر اسی شہر میں جمع ہو گئے تھے تاکہ مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں، خاص طور راجہ داہر کا بیٹا جئے سنگھ ، راور ، اس نے وہاں کے قلعہ کو مضبوط کیا اور فوجوں کو منظم کیا اور مقابلہ کی تیاری کرنے لگا، محمد بن قاسم کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ بھی برہمن آباد کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں قلعہ و ہلیلہ کی فوج نے مقابلہ کیا، وہاں سولہ ہزار کی فوج موجود تھی، لیکن محمد بن قاسم کی فوج کے سامنے نہ ٹک سکی اور کچھ ہی دنوں میں یہ قلعہ بھی فتح ہو گیا، آگے چل کر قلعہ بہرور کی فوج نے بھی مقابلہ کیا، لیکن محمد بن قاسم نے دو مہینہ تک محاصر جاری رکھا، یہاں تک کہ قلعہ کے اندر سامان رسد ختم ہونے لگا، آخر ایک رات تمام فوج شہر کے راستہ فرار ہو گئی، محمد بن قاسم کی فوج قلعہ میں داخل ہو گئی، ان تمام قلعوں کی فتوحات کی خبر جب راجہ داہر کے وزیری ساگر کو پہونچی جو کہ اس کے بیٹے کے ساتھ برہمن آباد میں موجود تھا، اس نے محمد بن قاسم سے امان طلب کی اور اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا، محمد بن قاسم نے اس کی عزت افزائی کی اور اسے اپنا وزیر بنا لیا۔
ان قلعوں کو زیر کرنے کے بعد محمد بن قاسم برہمن آباد پہونچا اور جلوانی نہر کے کنارے خیمہ زن ہوا اور ارد گرد خندق کھودنے کا حکم دیا تا کہ دشمن کی فوج شب خون نہ مار سکے ، راجہ جئے سنگھ کے لشکر چار، پانچ ہزار کی تعداد میں روز نکلتے ، شام تک لڑائی جاری رہتی ، سورج غروب ہونے کے بعد قلعہ میں داخل ہو جاتے، چھ مہینہ تک یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک اہل شہر نے تنگ آکر محمد بن قاسم سے امان طلب کی اور قلعہ کا دروازہ محمد بن قاسم کے لئے کھول دیا، راجہ داہر کا بیٹا کشمیر کی طرف بھاگ گیا، آخر کار یہ شہر بھی فتح ہوا، اور مسلمان بحیثیت فاتح شہر میں داخل ہوئے، محمد بن قاسم کچھ نوں شہر میں قیام کیا ، وہاں کے انتظامی امور کو درست کیا، اہالیان شہر کو امان دی، ان کو پوری آزادی دی گئی کہ وہ اپنے رسوم و عبادات اسی طرح بجالاتے رہیں جس طرح وہ پہلے سے کر رہے تھے اور جو جزیہ ان کے اوپر واجب ہے اسے ادا کریں۔
مزید آگے بڑھتے ہوئے مسلم فوج ساوندی شہر میں داخل ہوئی، وہاں پہلے ہی مسلمانوں کی ہیبت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ چکی تھی، وہ کسی بھی طرح اپنی جانوں کو جوکھم میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے، لہذا وہاں کے لوگوں نے امان طلب کی اور کسی بھی طرح کی لڑائی سے گریز کیا، سپہ سالار لشکر نے انہیں اس شرط کے ساتھ امان دی کہ وہ مسلمانوں کی ضیافت کریں گے ، وہ اس پر راضی ہو گئے، کچھ دنوں بعد ہے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔
مزید آگے بڑھتے ہوئے مسلم لشکر بسمد شہر پہونچا، وہاں کے لوگوں نے بھی جنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی جسے محمد بن قاسم نے بخوشی قبول کر لیا اور یہ شہر بھی مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔
آگے بڑھتے ہوئے روہڑی شہر آیا، یہ علاقہ مسلمانوں تیر اندازوں کی زد میں تھا، سندھ کے پہاڑی علاقوں میں سے ایک پہاڑ پر واقع تھا، اس کا راستہ دشوار گزار تھا، اوپر چڑھنا مشکل تھا، محمد بن قاسم نے کئی ماہ تک محاصرہ جاری رکھا، یہاں تک کہ اس کے باشندوں نے مصالحت کی پیشکش کی، محمد بن قاسم نے ان کی صلح قبول کر لی، پھر سکھر شہر بھی فتح کیا، سفر یہیں ختم نہیں ہوا، بلکہ وہ دریائے بیاس عبور کر کے ملتان تک پہونچ گیا۔
ملتان شہر
یہ سندھ کے اہم شہروں میں سے ایک ہے ، یہ کافی قدیم اور بڑا شہر تھا، اہل سندھ کے خیال میں اس شہر کا تقدس دیبل شہر پر فوقیت رکھتا تھا، اس میں عظیم بودھ یا صنم خانہ بھی تھا، جس پر مال و دولت، ہدایا و تحائف نذروں کی شکل میں نچھاور کئے جاتے تھے، لوگ یہاں عقیدت بھرے جذبات لئے دور دراز سے حاضری دینے آتے تھے، اس کے احترام میں دل جھکے جاتے تھے ، سر اور داڑھی کے بال اس کے قرب میں منڈواتے تھے، قربانی کے جانور کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کرتے تھے، زائرین ہجوم مسلسل وہاں موجود رہتا تھا، لوگ مصروف عبادت رہتے تھے ، وہاں کے صنم خانوں کی ضخامت و وسعت اس قدر تھی کہ اس کے دربانوں و خدمت گاروں کی تعداد چھ ہزار کاہنوں تک پہونچتی تھی، جو شب و روز وہیں مقیم رہتے تھے، یہ ہر آنے والے کا استقبال کرتے تھے، سندھ کی بستیوں میں اس کا ایک نمایاں مقام تھا۔ محمد بن قاسم ملتان شہر پہنچا، لوگوں نے قلعہ بند ہو کر لڑائی شروع کی، اولا تو یہ خیال تھا کہ محاصرہ طویل نہ کھینچ سکے گا جلد ہی ان کے راشن پانی کے ذخائر ختم ہو جائیں گے ، بھوک پیاس انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیں گے، لیکن محاصرہ طویل ہو گیا، مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ پانی کا جو ذخیرہ ان کے پاس ہے جلد ہی ختم ہو جائے گا، مگر بارش کا پانی نالہ کے ذریعہ قلعہ کے اندر داخل ہو رہا تھا، اور بارش کے پانی کا ذخیرہ اندرون شہر ہی تھا، بالآخر شہریوں میں سے کسی نے مخبری کر دی، تو مسلمانوں نے خفیہ نالہ بند کر دیا، جب پانی اندر نہ پہونچا تو محصورین کو پیاس نے ستایا، حتی کہ پیاس سے زبانیں لٹک گئیں ، ان حالات سے چھٹکارا پانے کے لئے کوئی چارہ نہ رہا، پھر صلح کے لئے ہتھیار ڈال دئے، اور قلعہ کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھول دیا، لڑنے والے ہلاک ہوئے اور دوسروں کو قیدی بنا لیا گیا۔
محمد بن قاسم جب شہر میں داخل ہوا تو وہاں کے بڑے مندر میں بہت سارا سونا ملا، جو قدیم بدھ کے زائرین نے وہاں رکھا تھا، سالوں گزرنے کی وجہ سے سونے کے اوپر نیچے تہ بہ تہ ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ سندھی ہیرو نے حکم دیا کہ یہ سونا ایک کمرے میں جمع کیا جائے ، اس کمرے کا طول قریباً پندرہ فٹ اور عرض بارہ فٹ تھا، اسی وجہ سے ملتان کا نام سونے کا خزانہ رکھا گیا، محمد بن قاسم نے اس مال کا پانچواں حصہ نکال کر باقی حصہ فوجیوں میں تقسیم کر دیا۔
سقوط ملتان کے بعد کوئی بھی مزاحمت کرنے والا باقی نہ رہا، اور پورا سندھ محمد بن قاسم کے زیر نگیں ہو گیا، اور وہ پورے سندھ کا امیر مقرر ہوا اور سندھ کی زمام کار سنبھالی، اس نے جس نظم و نسق کو جاری کیا وہ عدل و مساوات پر مبنی تھا، اس طرح اس نے سبھی کا دل جیت لیا، ہندو مسلم سبھی کو شریک حکومت کیا، سندھی ، جاٹ اور پنجابی یہ سب اس کی طرف سے سندھ کے مختلف علاقوں میں حکومتی امور انجام دیا کرتے تھے ، راجہ داہر کے وزیر سی ساگر کو اپنا مشیر خاص مقرر کیا ، ہندوؤں سے متعلق نظام کو بڑی حد تک جوں کا توں باقی رکھا، مثلا اگر مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ مسلم قاضی کرتے تو ہندوؤں کے مذہبی امور کا فیصلہ ان کے پنڈت کرتے، ان اقدامات کے بدولت حاکم و محکوم کے درمیان بہترین تعلقات قائم ہو گئے ، حکومت میں امن وامان قائم ہو گیا، اس رواداری کے نتیجہ میں وہاں بہت ہی تیزی کے ساتھ اسلامی تہذیب و تمدن کو فروغ ملا۔
محمد بن قاسم کے آخری ایام
سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم نے مزید پیش قدمی کے لئے تیاری کی، چنانچہ حجاج بن یوسف کے پاس خط بھیجا جس میں مملکت قنوج پر فوج کشی کی اجازت طلب کی، یہ شمالی ہند میں اپنے وقت کی سب سے بڑی مملکت تھی جس کی حدود سندھ سے لے کر بنگال تک پھیلی ہوئی تھی، حجاج نے اس کی اجازت دے دی، محمد بن قاسم نے قنوج کے راجہ کے دربار میں اپنی طرف سے وفد روانہ کیا، اور راجہ کو دعوت دی که یا تو وہ اسلام قبول کر لے یا جزیہ دینے کے لئے تیار رہے، لیکن قنوج کے راجہ نے وفد کے ساتھ برا سلوک کیا، لہذا محمد بن قاسم نے قنوج فتح کرنے کا ارادہ کر لیا، لیکن ابھی وہ تیاری کر ہی رہا تھا تبھی خبر پہونچی کہ خلیفہ وقت ولید بن عبد الملک کا انتقال ہو گیا ہے اور سلیمان بن عبد الملک اس کی جگہ خلیفہ مقرر ہو گیا ہے، چونکہ سلیمان کو حجاج بن یوسف سے سخت نفرت تھی، لہذا اس نے خلیفہ بنتے ہی حجاج کے مقرر کردہ جتنے بھی عمال اور گورنر تھے ان سب کو ہٹا دیا، محمد بن قاسم بھی اس کی زد میں آگیا، سلیمان بن عبد الملک نے محمد بن قاسم کو بھی معزول کر دیا اور اس کی جگہ یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا گورنر مقرر کر دیا اور محمد بن قاسم کو والی عراق صالح بن عبد الرحمان کے حوالہ کر دیا گیا جس نے اس کو واسط کی جیل میں مختلف طرح سے تکلیفیں پہونچا کر مار ڈالا، سندھ میں قیام کے دوران وہ اپنی ہمت و بہادری اور عدل و انصاف کی وجہ عوام میں بہت مقبول تھا۔ عوام اس سے بہت محبت کرتے تھے، جب وہ سندھ چھوڑ کر جا رہا تھا تو عوام کا ایک بڑا طبقہ اس کے جانے پر آنسو بہا رہا تھا، اس کے جانے کے بعد اہل سندھ نے اس کی یاد میں مجسمہ بنایا اور بہت سارے شعراء نے اس کا مرثیہ لکھا۔