محمد بن قاسم اور سندھ

سندھ کا علاقہ ہمیشہ ہی مسلم فاتحین کی توجہ کا مرکز رہا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور امیر معاویہؓ کے زمانے میں سندھ کے لئے کوئی بڑی مہم نہیں شروع کی جاسکی، امیر معاویہ کو جب خانہ جنگی سے سکون نصیب ہوا تو انہوں نے ان علاقوں کی طرف توجہ کی جو کبھی ایران کا حصہ تھے اور انہیں سندھ کے فرمانروا نے اپنی سلطنت میں ضم کر لیا تھا، پھر یزید بن معاویہ کے دور میں اندرونی خلفشار شروع ہو گیا اور پیش رفت رک گئی، لیکن مسلم خلفاء ہمیشہ کسی ایسے مناسب موقع کے منتظر تھے جب اس سلسلے میں پیش قدمی کی جاسکے

، اچانک سندھ کے راجہ نے خود ہی یہ حالات پیدا کر دئے کہ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے عہد میں عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ کو فتح کرنے کے لئے فوج روانہ کرنی پڑی۔

محمد بن قاسم اور سندھ
محمد بن قاسم اور سندھ

محمد بن قاسم کے حملے کی وجہ

اس کی تفصیل یہ ہے کچھ مسلمان سوداگر جزیرہ سراندیپ میں بہ حالت سفر فوت ہو گئے تھے ، ان کے یتیم بچے اور بیوہ عورتیں جو اس جزیرہ میں رہ گئیں تھیں ان کو سراندیپ کے راجہ نے حجاج بن یوسف ثقفی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک کی عنایت و مہربانی اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے بہترین ذریعہ سمجھا، سراندیپ کا راجہ مسلمانوں کی فتوحات کا حال سن سن کر پہلے سے مرعوب ہو چکا تھا اور اپنی نیاز مندی کے اظہار کی غرض سے کسی ذریعہ اور حیلہ کا متلاشی تھا، چنانچہ اس نے ان یتیم بچوں اور بیواؤں کو بڑی تعظیم واکرام کے ساتھ اپنے معتمدوں کے ساتھ اپنے خاص جہاز میں بیٹھا کر حجاج کے پاس روانہ کیا، بہت سے قیمتی تحفے اور ہدیے حجاج اور خلیفہ ولید کے لئے بھیجے اور ان یتیموں اور بیواؤں سے امید رکھی کہ یہ حجاج سے ضرور میری تعریف کریں گی، یہ کشتیاں سراندیپ سے روانہ ہو کر ساحل کے قریب قریب سفر کرتی ہوئی خلیج فارس کی طرف روانہ ہو ئیں تاکہ وہاں سے خشکی پر اتر کر یہ لوگ مع تحفہ و ہدایا حجاج کی خدمت میں کوفہ پہونچیں، راستے میں باد مخالف طوفان نے ان کشتیوں کو سندھ کی بندرگار دیبل میں لا ڈالا، یہاں سندھ کے راجہ مسمی داہر کے سپاہیوں نے ان کشتیوں کو لوٹ لیا اور سواریوں کو قید کر لیا، یہ حال جب حجاج کو معلوم ہوا تو اس نے سندھ کے راجہ کو لکھا کہ وہ کشتیاں ہمارے پاس آرہی تھیں تم لٹیروں کو قرار واقعی سزا دو اور مسافروں کو مع سامان مسروقہ ہمارے پاس بھیج دو، صاحب فتوح البلدان نے ذکر کیا ہے کہ اس میں قبیلہ بنی یربوع کی ایک عورت تھی جب ڈاکوؤں نے قافلہ کو لوٹ لیا تو اس نے حجاج کو مدد کے لئے پکارا ، جب حجاج کو اس کا علم ہوا تو اس نے کہا لبیک میری بہن، اور اس مظلوم بہن کا بدلہ لینے کے لئے کاروائی شروع کر دی، اس نے راجہ داہر سے ان لوگوں کو واپس کرنے کو کہا مگر راجہ نے جواب دیا کہ وہ ڈاکو میری دسترس سے باہر ہیں میں ان کو نہیں پکڑ سکتا، راجہ داہر کی اس ہٹ دھرمی بھرے جواب سے حجاج بہت ناراض ہوا۔

حملہ کا آغاز

اس وقت حجاج بن یوسف اموی خلافت کی طرف سے عراق کا حاکم تھا، اور سندھ کی سرحد بھی عراق سے ملتی تھی جس کے نتیجہ میں وہاں کے متصل امور کا ذمہ دار وہی تھا، لہذا جب سندھ کے راجہ کی قید میں موجود ان مسلمان عورتوں نے مدد کے لئے حجاج بن یوسف کو پکارا تو اس نے سندھ پر حملہ کا ارادہ بنالیا، چنانچہ سب سے پہلے حجاج نے عبد اللہ بن نبہان کو دیبل کی طرف لشکر کے ساتھ روانہ کیا، مگر انہیں شکست ہوئی اور شہید ہو گئے، پھر حجاج نے بدیل بن طہفہ البجلی کو جو اس وقت عمان کے گورنر تھے دیبل کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا، مگر دوران جنگ ان کا گھوڑا بدک گیا اور وہ دشمنوں کی ضد میں آگئے اور وہ بھی شہید کر دئے گئے۔

محمد بن قاسم کی پیش قدمی 

ان دونوں مہم کی ناکامی پر حجاج کو بہت صدمہ پہونچا، مگر ہار ماننا اس نے گوارا نہیں کیا اور ایک بڑے حملے کی تیاری شروع کر دی ، لہذا اس نے سندھ کو فتح کرنے کے لئے خلیفہ وقت ولید بن عبد الملک سے اجازت طلب کی اور اس سے درخواست کی کہ وہ ایک عظیم لشکر کی تیاری کے سارے سامان حرب ورسد فراہم کرے، اولاً تو ولید دور دراز علاقے پر فوج کشی، شاہی خزانہ پر بوجھ اور سابقہ دونوں حملوں کا انجام سوچ کر تیار نہیں ہوا، لیکن حجاج بن یوسف کے اصرار پر اس نے رضا مندی دے دی اور شام کے جانباز چھ ہزار لشکر بھی فراہم کئے ، حجاج بن یوسف بھی کسی مناسب سپہ سالار کی تلاش اور اس مہم کی تیاری میں مصروف ہو گیا، بالآخر اس کی نظر انتخاب محمد بن قاسم پر پڑی جو اس کا بھتیجا تھا اور صرف سترہ سال کا تھا، لیکن انتظامی امور اور شجاعت و بہادری میں شہرت حاصل کر چکا تھا، حجاج بن یوسف نے اسے 22ھ مطابق 711 ء سندھ کی طرف ایک لشکر اس کی قیادت میں روانہ کیا ، اس بار لشکر کی کمان حجاج نے خود اپنے ہاتھ میں رکھی تھی اور یہ حکم دیا کہ ہر تیسرے دن تمام حالات بذریعہ خطوط اس کے پاس بھیجے جائیں ، تاکہ ان خطوط کے ذریعہ حجاج مسلسل ہر پیش قدمی سے واقف ہو تا رہے اور مناسب ہدایتیں دیتا رہے ، حجاج کا حکم ملنے کے بعد محمد بن قاسم شیراز پہونچا، وہیں قیام کیا، وہاں عراق اور شام سے بھیجی جانے والی فوجیں اسے مل گئیں، حجاج نے اس لشکر کے ساتھ ضروریات کے تمام ہی سامان فراہم کئے تھے، یہاں تک کہ سوئی دھاگہ اور سرکہ بھی ساتھ میں بھیجا جو عربوں کی بہت محبوب غذا تھی، تاکہ سامان رسد کی کمی فتوحات میں کسی طرح حائل نہ ہو، اس میں تین ہزار اونٹ بھی تھے جو صرف جنگی سامان واسباب اٹھانے کے لئے تھے، چوں کہ سندھ کی حکومت کی فوج میں ایک بڑی تعداد میں ہاتھی بھی تھے، جو بڑے سے بڑے لشکر کو منتشر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے ، لہذا حجاج نے کچھ ایسے درزیوں کو بھی بھیجا تھا جو ہاتھیوں کی شکلیں تیار کر سکیں، سامان رسد کے ساتھ حجاج نے ایک خط بھی روانہ کیا تھا، جس میں اس نے فوج کے لئے جنگی حکمت عملی کا ذکر کیا تھا:

تمہیں سبھی سامان رسد فراہم کر دئے گئے ہیں، تم میں سے ہر چار فوجی پر ایک اونٹ ہے جسے وہ اپنا سارا سامان اٹھانے کے لئے استعمال کرے گا، اونٹ پر اس سے زیادہ بوجھ مٹ دالو، اس سلسلے میں اللہ سے ڈرو، صبر کرو اور جمے رہو ، جب دشمن کے ملک پہونچو تو صحراء ہامون میں اترو اور جب لڑائی کا وقت آئے تو فوج کی شکل میں منتشر ہو جاؤ اور کناروں سے نکل کے آؤ، کیوں کہ ہاتھیوں کی جنگ کی یہی حکمت عملی ہے ، جب دشمن حملہ کرے تو اپنی جگہ ٹھہر جاؤ اور اس پر تیروں کی بارش کرو“

تمام فوج اور سامان رسد ملنے کے بعد محمد بن قاسم شیراز سے مکران پہونچا، کچھ عرصہ وہاں قیام کیا، پھر قند پور شہر آیا اسے فتح کیا، اس کی فتح میں زیادہ مشکل نہ پیش آئی، پھر ارمائیل شہر کی طرف بڑھا، یہاں بھی مقابلہ ہوا، لیکن اہل شہر بہت جلد ہمت ہار بیٹھے ، بالآخر شہر محمد بن قاسم کے سپرد کر دیا، محمد بن قاسم نے ان شہروں کو اس لئے فتح کیا کیوں کی یہ دیبل شہر کے راستے پر پڑتے تھے ، اور دیبل کی طرف آگے بڑھنے کے لئے ان دونوں کو فتح کرنا بہت ضروری تھا۔

دیبل کی فتح

دیبل اس وقت سندھ کی سب سے بڑی بندر گار تھی، اس شہر کو دیول بندر بھی کہتے تھے ، محمد بن قاسم فارس کے جنوبی سمت سے ساحل سمندر کے قریب سے ہوتا ہو ادیبل کی طرف روانہ ہوا، جمعہ کے روز دیبل کے ساحل پر سمندر کے راستے حجاج نے جو جنگی سازو سامان اور مزید فوجیں بھیجوائی تھی وہ اس سے آکر مل گئیں، اس طرح سے بری اور بحری فوج دونوں ہی جمع ہو گئیں، ساتھ میں حجاج بن یوسف کا خط بھی تھا، جس میں اس نے محمد بن قاسم کو یہ حکم دیا تھا کہ ” جب وہ دیبل پہونچے تو لشکر کے پڑاؤ کے ارد گرد خندق کھودی جائے، تاکہ لشکر کسی بھی طرح کے اچانک حملہ سے محفوظ رہے اور یہ نصیحت کی کہ باہمی اختلاف سے بچنا اور دشمن سے میل جول نہ کرنا ” ، محمد بن قاسم نے شہر کا گھیراؤ کر لیا، ہر طرف منجنیقیں نصب کروائیں، اس میں ایک منجنیق ایسی تھی جسے پانچ سو آدمی مل کر کھینچتے تھے، اس کا نام “عروس” تھا، قائد لشکر نے منجنیقوں سے پتھراو کا حکم دیا، ابتدائی سات دن شہر کی فوج قلعہ سے نکل کر حملہ کر رہی تھی، مسلم فوج اقدامی حملہ سے گریز کرتی رہی، بالآخر آٹھویں دن محمد بن قاسم نے پر زور حملہ کا حکم دیا، مسلم فوج نے اس زور کا حملہ کیا کہ دیبل کی فوج قلعہ بند ہونے پر مجبور ، محاصرہ جاری رہا، آخر کار فتح کا سراغ لگ گیا، در اصل شہر دیبل کے اندر ایک بڑا معبد تھا، جس کی لمبائی چالیس گز گنبد بنا ہوا تھا، اس کی چوڑائی بھی چالیس گز تھی، اس کے اوپر ایک جھنڈا لہرا رہا، جو ان کے نزدیک بہت ہی مقدس تھا، کے پجاری تھے ان کے دل اس کی طرف کھنچے جاتے تھے ، وہ اس کی تعظیم کرتے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے قربانی کے جانور ذبح کرتے ، جیسے عرب قبل از نعمت اسلام دور جاہلیت میں کیا کرتے تھے ، دیبل کا صنم یا بدھ کا نام جیسا کہ عرب فاتحین نے محطم ( شیر ) رکھا تھا، وہ بہت بڑے ہیکل کی بلند شمار اتارے کے کپڑے کی ضخامت اتنی تھی کہ جب اس کے پاس سے ہوا کا گزر ہوتا تو یوں لہراتا کہ اہل شہر کے دل اس کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی طرف مائل ہو جاتے، حجاج کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو اس نے منجقیق کو ایک خاص زاویہ میں رکھ کر حملہ کرنے کا حکم دیا، اور کہا اس مینار پر حملہ کر کے اس جھنڈے کو زمین دوز کرو، لہذا نویں دن سورج طلوع ہوتے ہی محمد بن قاسم نے جعونہ السلمی کو جو کہ منجنیق کے امور کا ذمہ دار تھا گنبد کو نشانہ بنانے کا حکم دیا اور اس کے گرتے ہی اہل شہر کی ہمت ٹوٹنے لگی، لہذا انہوں نے باہر نکل کر حملہ شروع کیا مگر مسلم لشکر کی تاب نہ لا کر واپس قلعہ بند ہو گئے، محمد بن قاسم نے سیڑھی لگا کر فصیل پر چڑھنے کا حکم دیا، چنانچہ کوفہ کا مراد نامی شخص سب سے پہلے اس پر چڑھا، اور دروازہ کھول دیا، تین دن شہر میں لڑائی چلتی رہی، آخر کار راجہ داہر کا گورنر قلعہ کی دیوار کود کر فرار ہو گیا، یہ 89 ھجری کا واقعہ ہے، ایک بڑی مقدار میں مال غنیمت ملا جس میں سے پانچواں حصہ دار الخلافہ بھیج دیا گیا، باقی سارا مال غنیمت فوجیوں میں تقسیم کر دیا گیا، وہیں پر کچھ وہ مسلمان قیدی بھی تھے جنہیں راجہ واہر کی فوج نے قید کر رکھا تھا، محمد بن قاسم نے ان کو آزاد کرایا اور با عزت ان کے وطن واپس پہونچایا، محمد بن قاسم نے شہر کا نظام درست کرایا، ایک مسجد تعمیر کرائی اور چار ہزار مسلمانوں کو وہاں آباد کیا اور وداع بن حمید البحری کو شہر کا گورنر بنا کر آگے کے لئے روانہ ہو گیا۔

سندھ کی مختلف قلعوں کی فتوحات

دیبل کا حاکم شکست کے بعد نیرون بھاگ گیا، جہاں راجہ داہر کا بیٹا جئے سنگھ حاکم تھا، جب راجہ داہر کو دییل بار جانے کی خبر پہونچی تو اس نے فورا اپنے بیٹے جئے سنگھ کو حکم دیا کہ وہاں کسی اور کو حاکم مقرر کرے اور اس کو حکم دے کہ وہ شہر کے انتظامات درست کرے اور وہ خود فورا برہمن آباد پہونچے، محمد بن قاسم بھی نیرون شہر کی طرف متوجہ ہوا، یہ وہی شہر ہے جہاں آج شہر حیدر آباد موجود ہے، پہلے منجنیق اور بحری فوج کو ندی کے راستہ نیرون کی طرف روانہ کیا اور خود بری فوج کے ساتھ سیسم شہر کے راستے روانہ ہوا، جب وہ سیسم شہر پہونچا وہاں حجاج بن یوسف کا خط بھی آپہونچا، جس میں اس نے لکھا تھا کہ ” ہم پوری محنت ، کوشش اور مال اس لئے صرف کر رہے ہیں تا کہ تم فتح حاصل کر سکو اور دشمن اپنے کئے کہ سزا پا سکے، یاد رکھو جتنے بھی مال غنیمت ہیں وہ سب تمہیں حاصل ہوں گے ، تمہیں چاہئے کہ تم ہر ایک کا احترام کرو، تاکہ وہ مضبوط دل کے ساتھ لڑ سکے، فتح کے بعد تم اس ملک کے حاکم ہوگے، مال غنیمت کو فوجیوں میں تقسیم کرو، ان کی کسی بھی ضرورت پر خرچ کرنے میں ذرا بھی کنجوسی نہ کرو اور مال کے ذریعہ اپنی رعایا کو اپنی طرف مائل کرو اور جب رعایا خوشحال ہو گی تو ملک ترقی کرے گا”۔

نیرون شہر دیبل سے پچیس فرسخ کے فاصلہ پر تھا، چھ دن کی مسافت طے کر کے مسلم فوج نیرون کے اطراف میں پہونچی، وہاں سیحون ندی تھی جو اس وقت بالکل خشک ہو چکی تھی ، فوج وہاں پہونچتے پہونچتے بالکل ہی تھک گئی تھی ، سامان رسد ختم ہو گیا تھا، محمد بن قاسم نے دعا مانگی اور اللہ تعالی نے دعا قبول کرلی، زور کی بارش ہوئی ندی پانی سے بھر گئی اور پوری وادی ہری بھری ہو گئی، فوج اور جانور سبھی سیراب ہو گئے، جب محمد بن قاسم نیرون پہونچا تو لوگوں نے قلعہ بند کر لیا، اس وقت وہاں کا حاکم ایک راہب تھا جو راجہ داہر کے پاس گیا ہوا تھا، جب وہ واپس نیرون پہونچا تو اپنے دو قاصد سامان رسد کے ساتھ محمد بن قاسم کے پاس بھیجا اور کہا کہ ہم سب اور پوری عوام دار الخلافہ کے خدمت گار ہیں، چونکہ میں شہر میں نہیں تھا میری عدم موجودگی میں اہل شہر نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا تھا، اس کے لئے ہم معافی کے خواستگار ہیں، پھر اس نے شہر کا دروازہ مسلمانوں کے لئے کھول دیا، محمد بن قاسم نے کہا آپ کے شہر کے لوگوں نے قلعہ کا دروازہ مسلمانوں مسلمانوں کے لئے بند کرکے جو غلطی کی اس کو آپ کی معذرت طلب کرنے پر معاف کرتے ہیں اور شہر کے حاکم بذات خود ہمارے پاس حاضر ہوں اپنی معذرت پیش کریں، اگلے دن حاکم راہب خود محمد بن قاسم کے سامنے حاضر ہوا، شہر میں مسلمانوں کو داخل ہونے کی اجازت دی اور محمد بن قاسم کی فوج کی ضیافت کی، محمد بن قاسم نے بھی اہل شہر کو امان دی، ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، شہر میں ایک مسجد تعمیر کرائی، مسلمانوں کی ایک کالونی بنائی، رعیت کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کے حکم صادر کئے۔

نیرون کو زیر کرنے کے بعد سیوستان پہونچا، یہاں پر راجہ داہر کا بھتیجا بجہرا حکومت کرتا تھا، یہاں پجاریوں اور مذہبی طبقہ نے محمد بن قاسم کے سیوستان کی طرف رخ کرنے کی خبر سنی تو وہ شہر کے حاکم بجہرا کے پاس پہونچے اور کہا کہ ہم عبادت گزار لوگ ہیں، جنگ و قتال سے دور رہتے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ مسلم لشکر ہم پر غالب آجائے گا اور ہمارے مال واسباب  لوٹ لے گا کہ ہم بھی تمہارے ساتھ تھے ، ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ دار الخلافہ سے یہ حکم ہے کہ جو بھی امان طلب کرے اسے امان دے دیا جائے ، لہذا اگر تم ہماری بات سے اتفاق کرو تو ہم امن کے سفیر بن کر مسلم فوج کے پاس جائیں اور ان سے صلح و امان کا وعدہ لے لیں، اور ہمیں معلوم ہے کہ عرب اپنا وعدہ وفا کرنے والے ہوتے ہیں، لیکن بجہرا نے ان کی بات نہ مانی اور مقابلہ کرنے کی ٹھانی، مسلم لشکر نے شہر کا محاصرہ کر لیا، محاصرہ انتہائی سخت ہو گیا، شہر پر نیزوں اور منجنیق سے حملہ کیا گیا، آخرکار اہل شہر نے یہاں کے حاکم کا ساتھ نہ دیا اور وہ شہر چھوڑ کر بھاگ گیا، اس شہر پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔

 سیوستان کی فح کے بعد محمد بن قاسم سربیدس شہر پہونچا، یہاں کے لوگوں نے بھی صلح کرلی اور خراج دینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

پھر شہر سیسم کا رخ کیا، شہر کے راجہ نے محمد بن قاسم سے صلح کر لی، محمد بن قاسم نے اس کی عزت افزائی کی ، اس نے آئندہ مہم میں سلمانوں کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔

پھر مسلم لشکر اشبہار شہر کی طرف متوجہ ہوا اور اس کا بھی محاصرہ کر لیا، ابتدا میں وہاں کی فوج نے مقابلہ مسلمانوں کیا اور خوب بہادری سے لڑائی کی، لیکن محاصرہ طویل ہونے کی وجہ سے ان کی ہمتیں بھی ٹوٹنے لگیں اور یہ یقین ہو گیا کہ مسلمان بنا فتح کئے واپس نہیں ہوں گے ، لہذا اہل شہر نے اس شرط کے ساتھ ہتھیار ڈال دئے کہ انہیں جان و مال کی امان دی جائے، مسلمانوں نے ان کی شرط کو قبول کر لیا، اس طرح سے یہ شہر بھی مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا، اسی طرح جس شہر کے لوگوں نے صلح کی درخواست کی سپہ سالار نے انہیں امان دی، جنہوں نے لڑائی کا ارادہ کیا انہیں بزور شمشیر فتح کیا گیا، راجہ داہر کے تمام ہی عمال محمد بن قاسم کے مقابلے میں ایک ایک کر کے شکست کھاتے چلے گئے، کوئی بھی ان کی بہادری کے آگے نہ ٹھہر سکا، اس طرح محمد بن قاسم شہروں کو فتح کرتے ہوے آگے بڑھتا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare