فن اسماء الرجال کی اہمیت
علوم الحدیث کی ان ہی انواع میں ( جو کہ حاکم ابو عبد اللہ نیشاپوری، حافظ ابن الصلاح، علامہ سیوطی اور علامہ حازمی نے بیان کہ ہے کہ حاکم ابو عبد اللہ نیشا پوری ۴۰۵ ھ نے ایک کتاب علوم الحدیث” تالیف کی اس میں پچاس انواع کو بیان کیا، پھر حافظ ابن الصلاح ۶۴۴،ھ ۶۴۳ ھ نے مقدمہ میں اور علامہ نووی نے تقریب میں ۶۵ انواع کا ذکر کیا، اور علامہ سیوطی نے اضافہ کر کے تدريب“ میں ۹۳ انواع پیش کی ہیں، اور علامہ حازمی نے تو کتاب العجالة میں فرمایا کہ: “علم الحديث يشتمل على أنواع كثيرة تبلغ مأة كل نوع منها نوع مستقل۔ ( یعنی علم حدیث کثیر انواع پر مشتمل ہے جن کی تعداد سو تک پہنچ رہی ہے اور ہر نوع اس کی ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے ) ایک عظیم نوع علم اسماء الرجال ہے جس کو محدثین کی اصطلاح میں علم الاسناد بھی کہا جاتا ہے یہ فن کیا ؟ کیوں؟ کب؟ کب سے؟ یعنی حقیقت، اہمیت ضرورت ، افادیت اور علماء امت کی اس فن میں علمی و فکری اور قلمی جولانیاں ان عناوین پر ہم کسی قدر تفصیل سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تا کہ اصل کتاب میں آنے والی روایات اور اس پر کئے جانے والے مثبت و منفی فیصلے اور نقد و جرح کی حقیقت و اصلیت میں بصیرت ہو۔
علم اسماء رجال کیا ہے؟:
یہ وہ علم ہے جس کے ذریعہ راویان حدیث کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تحقیق کی جاتی ہے، مثلاً راوی کی تاریخ ولادت ، تاریخ وفات، نام، حسب و نسب ، کنیت و القاب، دین و دیانت، تقوی وطہارت، عقائد و نظریات، علم و فهم، قوت و ضبط و اتقان، عدالت و ثقاہت، علمی استفاده ، شیوخ و تلاندہ ذاتی اور معاشرتی و اخلاقی احوال وغیرہ ان امور کی تحقیق کے بعد اس راوی کی حدیث مقبول یا مردود قرار پاتی ہے۔
گویا اس فن کا بنیادی مقصد اور اس کی اساسی غرض یہ ہوئی کہ راوی کے احوال کی روشنی میں صحت و سقم اور رد و قبول کے اعتبار سے حدیث کا درجہ متعین کیا جائے۔
قرآن میں علم اسماء رجال کی بنیادیں
قرآن کریم میں نقد رجال اور تحقیق شخصیات سے متعلق کچھ بنیادی اصول و قوانین بھی موجود ہیں مثلاً :
پہلا قانون
يا ايها الذين امنوا ان جاء كم فاسق بنبأ فتبينوا ان تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم تدمين. (سورة الحجرات : ٦) ترجمہ : اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلو، کہیں تم کسی قوم کے ساتھ نادانی کا سلوک کر بیٹھو، پھر اپنے کیے ہوئے پر نادم ہونا پڑے۔
دوسرا قانون
يا ايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرًا من الظن ان بعض الظن اثم و لا تجسسوا. (سورة الحجرات (۱۲) ترجمہ: اے ایمان والو! بہتیرے گمان سے بچو، یقینا بعض گمان گناہ ہوا کرتے ہیں اور عیوب مت ٹٹولو۔
ان دونوں آیتوں سے تحقیق رجال کا کیسا صاف ستھرا اور معتدل اصول سمجھ میں آیا۔
تیسرا قانون
واذا جاء هم أمر من الامن او الخوف اذاعوابه ولو ردوه الى الرسول والى اولى الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطو نه منهم. (سورة النساء: ۸۳) ترجمہ : اگر ان کے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ پیش آتا ہے، تو اس کا وہ چرچا کرنے لگتے ہیں اور اگر اسے رسول اور ان میں سے ” اولو الامر“ کے حوالہ کرتے تو وہ لوگ جو ان میں سے استنباط کرتے ہیں جان لیتے ۔
اس تیسرے قانون نے یہ بتلایا کہ اگر خود تحقیق کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اہل تحقیق سے رجوع کر لو پھر کوئی قدم اٹھاؤ۔
احادیث میں علم اسماء رجال کی بنیادیں
اسی طرح احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجال اور واسطوں کی تبیین و تفتیش کی طرف متوجہ فرمایا اور اندھی تقلید سے منع فرمایا ہے ، حضرت ابو ہریرہ رادی ہیں:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يكون في آخر الزمان دجالون كذابون يأتونكم من الأحاديث، بما لم تسمعوا انتم و لا آباء كم فاياكم و اياهم و لا يضلونكم ولا يفتنونكم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر زمانے میں دجال اور جھوٹے پیدا ہوں گے، تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جسے نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے آباء و اجداد نے ، سو تم ان سے بچ بچ کر رہنا، وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور فتنہ میں نہ ڈالدیں۔ (مقدمه مسلم : ۱۰)۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بئس اخو العشيرة ………. یہ آنے والا ) اپنے خاندان کا برا شخص ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان عبد الله رجل صالح …. عبد اللہ ایک نیک انسان ہے۔
اسی طرح ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راوی کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے اس کی بے اعتمادی کو یوں ظاہر فرمایا:
كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع “ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرتا رہے۔ (مقدمہ مسلم : ۸)۔
مذکورہ آیات و روایات سے معلوم ہوا کہ صحیح وضعیف احادیث کی تمیز ، بلکہ شرع و غیر شرع کی تمیز کے لیے ان واسطوں اور شخصیتوں کی حیثیت و حقیقت کا جاننا انتہائی ضروری ہے جن سے احادیث منقول ہوئی ہیں۔