فقہ کی اصطلاحی تعریف
ابتدائی دور میں فقہ کی تعریف زیادہ عام معنی کے ساتھ کی جاتی تھی اور فقیہ کا استعمال ان لوگوں کے لیے کیا جاتا تھا جو تمام علوم شرعیہ کا علم رکھتے ہوں، کیونکہ شروع میں فقہ ایک جامع لفظ تھا۔ کتاب وسنت سے سمجھی جانے والی ہر چیز کو فقہ کہتے تھے۔ وحی و نبوت کی معلومات سے جو نتائج بھی اخذ کیے جاتے ہوں، خواہ ان کا تعلق علمیات سے ہو، یا وجدانیات (اس میں اخلاق و تصوف شامل ہیں)، یا اعتقادیات سے ، سب ہی پر فقہ کا اطلاق ہوتا تھا۔
اس ضمن میں امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فقہ کی تعریف یوں کی ہے: الفقه، معرفة النفس، مالها وما علیہا۔ ترجمہ : فقہ ، نفس کے حقوق اور فرائض و واجبات جاننے کا نام ہے۔ عقائد کی اہمیت کے پیش نظر امام ابو حنیفہ اسے ”فقہ اکبر “ کہتے تھے۔ نیز یہ مفہوم، جو فقہ کے لیے تھا، رسول اللہ صلی علی ایم کی حدیث کے مطابق ہے : ” اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ (اللہ ) عطا فرمادیتا ہے”۔
بعد کے دور میں جب مختلف علوم کا ظہور ہوا جس میں علم فقہ بھی شامل ہے تو فقہ کو شریعت کے عملی احکام کہا جانے لگا۔ نیز فقہ کا اطلاق محض فروعی احکام کے لیے مخصوص ہو گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ حکم اور دلیل کے درمیان ارتباط کو جاننا بھی فقہ میں شامل کیا گیا۔
جیسا کہ امام شافعی کی طرف منسوب مشہور تعریف ہے : ” العلم بالأحكام الشرعية العملية الفرعية) المكتسب من أدلتها التفصيلية ” بين ( ” فقہ ” ) شریعت کے عملی ( فروعی ) احکام جاننے کا نام ہے جو تفصیلی دلائل سے ماخوذ ( مکتسب) ہوں۔
احکام شرعية: حکم شرعی سے مراد اللہ تعالی کا خطاب جو مکلف (انسان) کے افعال سے متعلق ہو ۔ حکم کی دو قسمیں ہیں:
(1) حکم تکلیفی: جیسے کہ کسی عمل کا فرض یا واجب یا مستحب یا مباح یا حرام یا مکر وہ ہوتا۔
(2) حکم وضعی: کسی عمل کا شرط یا سبب یا مانع ہوتا۔
– شرط : جس کے عدم سے دوسری چیز کا عدم لازم ہو، لیکن جس کے وجود پر کسی دوسری کا وجود یا عدم لازم نہ ہو۔ مثال: وضوء نماز کے لیے شرط ہے۔ اگر وضوء نہیں تو نماز نہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اگر وضوء موجود ہو تو نماز بھی لازمی طور پر موجود ہو، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ نماز کا وقت ابھی نہ ہوا ہو۔
سبب: جس کے موجود ہونے سے شرعی حکم کا وجو د لازم آئے (سوائے اس کے کہ کوئی مانع آجائے)، اور جسکی عدم موجودگی سے کوئی حکم لازم نہ آئے۔ مثال: سورج کا ڈھلنا نماز ظہر کی فرضیت کا سبب ہے۔ لیکن اگر اس وقت مکلف پر بے ہوشی طاری ہو گئی تو نماز کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ مانع : لغت میں رکاوٹ کو مانع کہتے ہیں۔ فقہ میں وہ جس کے وجود سے (حکم کا) عدم لازم آئے، اور اس کے عدم سے (حکم کا) وجود اور خود اس (مانع) کا عدم لازم نہ آئے۔
مانع کی دو قسمیں ہیں:
(1) مانع حکم: رشتہ داری وراثت کا سبب ہے اور قتل عمد کرنا وراثت (یعنی حکم) کے لئے مانع ہے۔ لہذا یہاں مانع حکم (وراثت) کو ختم کر رہا ہے نہ کہ سبب (رشتہ داری) کو۔
(2) مانع سبب: کمال نصاب زکوٰۃ کا سبب ہے لیکن اگر ز کوۃ کا مالک مدین ہو تو یہ زکوۃ دینے کا ایک مانع ہو گا۔
شرعية: کی اس قید کا مقصد غیر شرعی احکام کو خارج کرنا ہے، جیسے کہ احکام عقلیہ (کل، جزء سے بڑا ہے)، احکام حسیہ ( آگ جلا دیتی ہے)، احکام وضعیہ (مبتد امرفوع ہوتا ہے)، وغیرہ۔
عملية : وہ احکام جو مکلف کے عمل یا فعل ہے متعلق ہوتے ہیں، انہیں فروعی احکام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس تعریف سے اعتقادی یا اصولی احکام اللہ ایک ہے ، محمد علی ای ام پیغمبر خدا ہیں، آخرت میں حساب برحق ہے، وغیرہ) اور اخلاقی احکام (حسد اور تکبر کا حرام ہونا، وغیرہ) خارج ہوتے ہیں۔ غور کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ ”فقہ “ کا اطلاق بعد کے دور میں عملیات کے چند مختصر شعبوں تک محدود ہو کر رہ گیا، علامہ ابن نجیم الحنفی (صاحب كتاب البحر الرائق) نے ان عملی شعبوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: عبادات، معاملات اورمزاجر اگر ہم ان میں کتاب السیر کا بھی اضافہ کرلیں تو ایک طرح سے زندگی کے تقریبا تمام شعبوں کا احاطہ کر سکتے ہیں۔
ادلة تفصيلية: دلیل ( یہ مفرد ہے اولیه و دلائل کا) وہ ہے جس پر مناسب طریقے سے غور کیا جانے سے ایک دوسرے علم تک پہنچ سکتے ہیں۔ اگر علم کی جگہ ظن حاصل ہو تو یہ دلیل نہیں بلکہ ”امارہ “ کہلائے گا۔ ”دلیل تفصیلی“ سے مراد وہ دلیل جزوی (جزئي ) ہے۔
جس کا تعلق کسی خاص مسئلے سے ہو اور وہ اس کے لیے ایک خاص حکم قائم کرتی ہو ۔ احکام شریعت کے ماہرین شرعی دلائل کی روشنی میں ہی احکام معلوم کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے، روزے کی فرضیت کا علم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِيَامَ “ اس تفصیلی دلیل کے ذریعے حاصل ہوا، زکوۃ کی فرضیت کا علم ” اتوا الزکوة کے ذریعے حاصل ہوا، نماز کی فرضیت کا علم “أقِيمُوا الصلوة” کے ذریعے حاصل ہوا، وغیرہ۔
سنی اور شیعہ علماء کی متفقہ رائے کے مطابق شرعی دلائل کے سرچشمے صرف دو ہیں قرآن اور سنت نبوی۔ پھر کچھ معمولی اختلافات کے ساتھ ، علماء نے دو مزید ذرائع کا اضافہ کیا: اجماع اور قیاس، اور یہ چار ملا کر بنیادی مآخذ ( عربی میں المصادر الأولية) کہلاتے ہیں۔ اسلامی فقہ کی ترقی کے ساتھ مزید مآخذ وجود میں آئے جنہیں ثانوی مآخذ کہا جاتا ہے لیکن ان کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان ذرائع میں سے کچھ یہ ہیں: مصالح مرسلہ، عرف، استصحاب وغیرہ
ابن السمعانی کتاب القواطع میں لکھتے ہیں: الفقه، هو استنباط حكم المشكل من الواضح ۔ یعنی بحث اور اجتہاد کے ذریعے واضح شریعت کے نصوص (legal texts) کے اساس پر مشکل (یعنی پیچیدہ) کے حکم کو استنباط کرنے کو “ فقہ ”کہتے ہیں۔
فقہ کی ایک اور عام اور مقبول تعریف علماء کی اصطلاح میں یہ ہے : فقہ اُن احکام و مسائل کا مجموعہ ہے جن کے تعلق سے وحی نازل ہوئی ہے، اور جن کو مجتہدوں نے استنباط کیا ہے ، یا اہل فتاوی نے فتویٰ کے طور پر جاری کیا ہے، یا جن کو اہل تخریج ( مخصوص علماء) نے نصوص سے نکالا ہے۔
مندرجہ بالا تصریحات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ فقہ ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے قرآن و حدیث کے معانی و اشارات کے علم اور احکامات کی مخصوص دلائل کے ذریعے معرفت حاصل ہو۔ اس لحاظ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فقہ کا موضوع دو حصوں پر مشتمل ہے:
1. شریعت کے عملی احکام کا علم
2 تفصیلی دلائل کا علم