فقہ حنفی

فہرست

فقہ حنفی

عراق امام ابوحنیفہ کا مسکن و مولد اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کی فکر کا گہوارہ تھا، ان کے بعد ابراہیم نخعی اس خطے میں فقہ کے سب سے بڑے امام ہوئے۔ انہوں نے مسائل فقہ کا ایک مختصر مجموعہ بھی تیار کیا۔ امام ابو حنیفہ کے استاد حضرت حماد اگر چہ بلند پایہ مجتہد تھے ؛ مگر فقہ کی ترویج واشاعت میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ ان کے انتقال کے بعد جب امام ابو حنیفہ مسند نشین ہوئے تو علمی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ امام ابو حنیفہ کے زمانے تک فقہ کے کچھ مسائل ہی مدون ہوئے تھے ، وہ بھی زیادہ تر زبانی روایت پر ہی مبنی تھے، دوسرے جو کچھ بھی تھا اس کی کوئی فنی حیثیت نہ تھی، نہ استنباط و استدلال اور تصریح کے قواعد مرتب تھے۔ حدیثوں میں امتیاز مراتب نہ تھا اور شبہ النظیر علی النظیر کا کوئی قاعدہ بھی نہیں بنا تھا۔ مختصر یہ کہ فقہ جزئیات مسائل کا نام تھا۔ اس کو قانون کے رتبہ تک پہنچانے کے لیے بہت سے زینے باقی تھے۔ دوسری طرف فر ، فتوحات اسلامی کی کثرت کی وجہ سے اسلامی تمدن کا دائرہ ہر روز وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ واقعات اس کثرت سے پیش آتے کہ نصوص منقولہ سے استنباط و اجتہاد کے بغیر ان کا حل نکالنا مشکل ہو گیا تھا، نیز سلطنت کی وسعت اور دوسری قوموں کے میل جول سے تعلیم و تعلم نے اس قدر وسعت حاصل کی تھی کہ زبانی روایت اس کا متحمل نہیں کر سکتی تھی۔ ایسے وقت میں قدرتی طور پر ضرورت محسوس ہونے لگی تھی کہ ان جزئیات کو اصول کے ساتھ ترتیب دے کر ایک فن بنایا جائے نیز ہر روز پیش آنے والے مسائل کاپیشگی حل تلاش کیا جائے۔

امام ابو حنیفہ نے فقہ اسلامی کی ترتیب و تدوین پر کئی جہات سے کام شروع کیا، جزئیات مسائل کو ایک لڑی میں پرویا، نصوص شرعیہ سے استفادے کی شکلیں متعین کیں، استنباط و استخراج کے اصول مقرر کیے اور مستقبل میں آنے والے مسائل کا پیشگی حل تلاش کرنے کے لیے ”فقہ تقدیری“ کے نام سے الگ الگ فن کی بنیاد ڈالی جو ان کا اختصاص بھی تھا۔

فقہ حنفی میں قانون اسلامی کی تدوین

امام ابو حنیفہ کا سب سے بڑا کارنامہ جس نے انہیں لازوال عظمت عطا کی، یہ تھا کہ انہوں نے اس عظیم خلا کو پر کر دیا جو خلافت راشدہ کے بعد شوری کا سد باب ہو جانے سے اسلامی قانونی نظام میں واقع ہو گیا تھا۔ ایک صدی کے قریب اس حال پر گزر جانے سے جو نقصان رو نما ہو رہا تھا اسے ہر صاحب فکر آدمی محسوس کر رہا تھا۔ ایک طرف مسلم ریاست کے حدود سندھ سے اسپین تک پھیل چکے تھے۔ بیسیوں قو میں اپنے الگ الگ تمدن، رسم و رواج اور حالات کے ساتھ اس میں شامل ہو چکی تھیں۔ اندرون ملک مالیات کے مسائل، تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت کے مسائل، شادی بیاہ کے مسائل، دستوری، دیوانی اور فوج داری قوانین و ضوابط کے مسائل روز بروز سامنے آ رہے تھے۔ بیرون ملک دنیا بھر کی قوموں سے اس عظیم سلطنت کے تعلقات تھے اور ان میں جنگ، صلح، سفارتی روابط ، تجارتی لین دین، بحری و بری مسافرت، کسٹم وغیرہ کے مسائل پیدا ہو رہے تھے اور مسلمان چوں کہ اپنا ایک مستقل نظریہ ، اصول حیات اور قانون رکھتے تھے ، اس لیے ناگزیر تھا کہ وہ اپنے ہی نظام قانون کے تحت ان بے شمار نت نئے مسائل کو حل کریں۔ غرض ایک طرف وقت کا یہ زبر دست چیلنج تھا جس سے اسلام کو سابقہ تھا اور دوسری طرف حالت یہ تھی کہ ملوکیت کے دور میں کوئی ایسا مسلم آئینی ادارہ باقی نہ رہا تھا جس میں مسلمانوں کے معتمد علیہ اہل علم اور فقیہ اور مدبر بیٹھ کر ان مسائل پر سوچتے اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ان کا ایک مستند حل پیش کرتے جو سلطنت کی عدالتوں اور اس کے سرکاری محکموں کے لیے قانون قرار پاتا اور پوری مملکت میں یکسانی کے ساتھ اس پر عمل کیا جاتا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے امام ابو حنیفہ نے ایک سرکاری مجلس قانون وضع کی۔ جس کے ممبر ان امام ابو حنیفہ کے اپنے شاگرد تھے۔ ان میں سے قریب قریب ہر شخص امام کے علاوہ وقت کے دوسرے بڑے بڑے اساتذہ سے بھی قرآن، حدیث، فقہ اور دوسرے مددگار علوم ، مثلاً لغت، نحو، ادب اور تاریخ وسیر کی تعلیم حاصل کر چکا تھا۔ مختلف شاگرد مختلف علوم کے اختصاص کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اس مجلس میں ۸۳ ہزار قانونی مسائل طے کیے گیے تھے۔ اس میں صرف وہی مسائل زیر بحث نہیں آتے تھے جو اس وقت تک عملاً لوگوں کو یا ریاست کو پیش آچکے تھے ؛ بلکہ معاملات کی امکانی صورتیں فرض کر کے ان پر بحث کی جاتی تھی اور ان کا حل تلاش کیا جاتا تھا؛ تا کہ آئندہ کوئی نئی صورت پیش آجائے جو اب تک پیش نہ آئی ہو تو قانون میں پہلے سے ہی اس کا حل موجود ہو۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یہ بھی پڑھیں