فقہ حنفی کے بنیادی خدو خال
فقہ حنفی مقبول ترین فقہ ہے۔ مورخین نے اس کی مقبولیت کا بڑی گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا ہے۔ مقبولیت کا سب سے اہم سبب اس کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
امام ابو حنیفہ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت سے مسائل کے لیے استخراج و استنباط کے مناسب اصول وضع کیے۔ جن کی وجہ سے فقہ اسلامی ایک مستقل فن بن گیا۔ امام ابو حنیفہ نے ایسے وقت میں وضع اصول کی بنیاد ڈالی جب کہ بیشتر فنون ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں تھے۔ یہاں تک کہ نقل و کتابت کا رواج بھی بہت ہی کم تھا۔
یہ سچ ہے کہ عہد صحابہ و تابعین میں بھی قرآن و سنت سے استنباط مسائل کا رواج تھا اور فقہاء صحابہ و تابعین کچھ اصولوں کی بنیاد پر ہیں یہ کام کیا کرتے تھے؛ مگر یہ اصول نہ منضبط تھے اور نہ ہی متعارف۔ چوں کہ امام ابو حنیفہ کے پیش نظر فقہ کو مجتہدانہ اور مستقل فن کی حیثیت سے ترتیب دینا تھا۔ اس لیے استنباط و استخراج مسائل کے ایسے فطری و بنیادی اصول وضع کرنے پڑے، جو انسانی معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق ہوں اور ان سے استفادہ کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہو۔ چناں چہ اصول اربعہ ( قرآن، حدیث، اجماع، قیاس) کی توضیح، حدیث کے مراتب اور ان کے احکام، جرح و تعدیل کے اصول، اجماع کے حدود و ضوابط، قیاس کے اقسام و شرائط، احکام کی انواع، عموم کی خصوص و تحدید، رفع تعارض کے قواعد ، فہم مراد کے طرق، یہ مسائل ہیں جو فقہ واصول فقہ کے بنیادی ارکان ہیں اور ان تمام مسائل کے متعلق امام صاحب نے ضروری اصول و قواعد منضبط کیے، جو آج بھی فقہ حنفی کی کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو آج نہ صرف فقہ حنفی بلکہ پوری فقہ اسلامی کی بنیاد ہیں جو بلاشبہ امام ابو حنیفہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
احادیث نبویہ سے اخذ و استفادہ کے متعلق امام ابو حنیفہ نے جو اصول وضع یے، وہ فقہ اسلامی کی جان ہیں۔ امام صاحب نے تشریعی اور غیر تشریعی احادیث کی حیثیت متعین کر دی اور ان سے استفادہ کی راہیں مقرر کیں۔ اس کے علاوہ نقل و روایت میں ثقافت کے معیار اور احادیث کے قرآن اور عقل انسانی کے مطابق ہونے پر جو رائیں پیش کی ہیں، وہ بہت مہارت اور کمال علم کی دلیل ہیں۔
بحث احادیث کے علاوہ انہوں نے فقہ اسلامی کے لیے دوسرے اصول وضع کیے۔
تواتر سے جو بات ثابت نہ ہو وہ قرآن نہیں ہے۔ قرآن مجید میں خبر احاد کے ذریعہ کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا، مطلق کا مقید پر اطلاق نص پر زیادتی ہے۔ قرآن مجید کی عمومیت خبر احاد سے خاص نہیں ہوتی۔ عام بھی خاص کی طرح قطعی ہے۔ خاص اگر متاخر ہو تو وہ خاص کو بھی عام کر دیتا ہے۔ کسی چیز کی ممانعت اس کے باطل ہونے کی دلیل نہیں ہے۔)
فقہ حنفی کا دوسرا حصہ جو صرف قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ پہلے حصے کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہے اور وہ خاص حصہ ہے۔ اس میں امام ابو حنیفہ بلاشبہ تمام مجتہدین میں ممتاز ہیں؛ بلکہ علامہ شبلی نعمانی کے بقول اگر اسلام میں کوئی شخص واضع قانون گزرا ہے تو وہ صرف امام ابو حنیفہ ہیں۔
مسلمانوں میں توضیح قانون کا کام ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا ہے، جو ذہبی پیشوا تھے اور مذہبی قوانین میں نہایت غلو رکھتے تھے ؛ لیکن امام ابو حذیفہ اس صف میں اپنے معاصرین میں سب سے ممتاز تھے کہ وہ مذہبی تقدس کے ساتھ دنیاوی اغراض کے اندازہ شناس تھے اور تمدن کی ضرورتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس دوسرے حصے کی جس طرح تدوین کی اور جس ضبط و ربط سے اس کی جزئیات کا استقصاء کیا وہ اس زمانے کا نہایت وسیع قانون تھا اگرچہ اس کی تعبیر ایک عام لفظ فقہ سے کی جاتی ہے؛ لیکن در حقیقت اس میں بہت سے قوانین تھے جو آج کی تعلیم یافتہ دنیا میں ( ان ہی ابواب کے مسائل جو ترتیب دیئے گئے ہیں) وہ جدا جدا قانون کے نام سے موسوم ہیں۔ مثلاً قانون معاهده، قانون بیع، قانون لگان و مال گزاری، تعزیرات ضابطہ فوج داری و غیرہ وغیرہ۔