غزل کی تعریف | Falahe Millat

فہرست

غزل کی تعریف

لغت کے اعتبار سے غزل، عربی لفظ ہے جس کے معنی عشق و رومان کی باتیں کرنا ہے۔

لغت میں غزل کے معنی یوں بھی درج ہیں، عورتوں سے باتیں کرنا ، عورتوں کے حُسن و جمال کی تعریف کرنا نظم کی ایک صنف جس میں عشق و محبت کا ذکر ہوتا ہے۔

 غزل کی ایک پہچان یہ ہے کہ یہ نظم کی طرح مسلسل نہیں ہوتی ۔ بلکہ غزل کا ہر شعر مضمون کے لحاظ سے مختلف اور اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے۔ اختصار اور تہ داری غزل کی خوبی ہے۔

غزل کی تعریف
غزل کی تعریف

یہ بات بھی سچ ہے کہ غزل کسی بھی زمانے میں اپنے لفظی معنی کی پابند نہیں رہی۔ ہر عہد میں شاعروں نے مختلف مضامین کو غزل کا موضوع بنایا ہے۔ شعرا نے زندگی کے ہر رنگ کو غزل میں پیش کیا ہے۔  علامہ اخلاق دہلوی نے اپنی مشہور کتاب فن شاعری میں کلمہ، کلام اور شعر کے متعلق لکھا ہے۔

جس لفظ کے کچھ معنی ہوتے ہیں اسے کلمہ کہتے ہیں۔ اور کلمے کے ایسے مجموعہ کو جس سے پوری بات سمجھ میں آجائے اسے کلام کہتے ہیں۔ لغت میں شعر مصدر ہے جس کے معنی ہیں جاننا یا کسی چیز سے واقف ہونا لیکن عام طور سے لفظ شعر مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہوئے جانی ہوئی چیز ۔ شعر کو بیت بھی کہتے ہیں ۔

مختلف ماہرین فن نے غزل کی مختلف تعریف کی ہے۔ لیکن حسن و عشق کی باتیں ، رومان کی باتیں، حسن و جمال کی تعریف، ایجاز واختصار کی باتیں ہر تعریف میں مشترک ہیں۔ غزل کے موضوعات کے حوالے سے بھی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ غزل کے موضوعات بدلتے بھی رہے ہیں۔ لیکن غزل کی تعریف میں کچھ باتیں مشترک رہی ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر رحمتی اپنی کتاب ” غزل کی تنقیدی اصطلاحات میں غزل کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

غزل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں عورتوں سے گفتگو اور بات چیت کرنا ، ہرن کی وہ پر سوز آواز جوشکاری کتوں میں گھرنے کے بعد اس کے حلق سے نکلتی ہے۔ اصطلاح میں غزل شاعری کی ایک صنف سخن ہے جس میں تمام مضامین اختصار و اجمال ، نرم و ملائم لہجے میں ، جمال آفریں اور پر سوز یا نشاط آمیز کیفیات اور داخلی تجربے کے ساتھ پر تاثیر انداز میں ایک خاص خارجی ہیئت میں پیش کیےجاتے ہیں۔(غزل کی تنقیدی اصطلاحات ، ص 371)

 خارجی ہیئت کے اعتبار سے غزل کی ایک خوبصورت تعریف یہ ہو سکتی ہے ۔ ” خارجی ہیئت کے اعتبار سے غزل متحد الوزن ہم قافیہ اور ہم ردیف اشعار کا ایک مجموعہ ہوتی ہے جس کا ہر شعر مکمل مضمون رکھتا ہے اور دوسرے شعر سے آزاد ہوتا ہے ۔ داخلی ہیئت کے اعتبار سے غزل ایجاز و اختصار، رمز و کنایہ اور علامت، داخلی کیفیت اور شدت احساس کے ساتھ مخصوص انداز بیان پر منحصر ہوتی ہے ۔ چونکہ غزل کا ہر شعر مکمل مضمون رکھتا ہے اور دوسرے شعر سے آزاد ہوتا ہے اس بنا پر سخت گیر نقاد کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا ہے ۔ جبکہ مشہور ادیب اور نقاد پروفیسر رشید احمد صدیقی نے غزل کو اردو شاعری کی آبرو قرار دیا ہے۔

غزل کے ساتھ ساتھ پابند غزل ، آزاد غزل مسلسل غزل ، دو غزلہ، سہ غزلہ، غزل نما اور غزلیہ جیسی اصطلاحات بھی رائج ہیں۔ جہاں تک آزاد غزل کا تعلق ہے تو بہت کوششوں کے باوجود اس صنف کو مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ مظہر امام کو آزاد غزل کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مظہر امام کے تجربات سے بہت پہلے عبد الرحمن دہلوی کی کتاب ”مراة الشعر میں آزاد غزل کے اشارے موجود ہیں ۔ واضح ہو کہ آزاد غزل ایک خارجی ہیئت ہے جو بقیہ تمام امور میں پابند غزل کے جملہ اوصاف سے متصف ہوتی ہے۔ غزل کی تنقیدی اصطلاحات میں آزاد غزل کے متعلق یوں بیان ہوا ہے۔ ایسی غزل جس کے اشعار میں ایک بحر کے استعمال ہونے کے باوجود مصرع چھوٹے بڑے ہوں یعنی دونوں مصرع ہم وزن نہ ہوں ، آزاد غزل کہلاتی ہے۔ آزاد غزل کے شعر کے ایک مصرع میں ایک بحر کے ارکان کی تعداد محدود نہیں ہوتی ہے بلکہ شعر کے ایک مصرع میں ارکان کی تعداد اس کے آہنگ، بہاؤ اور مضمون و معنی پر بنی ہوتی ہے۔ آزاد غزل کے حوالے سے مظہر امام لکھتے ہیں۔

اس میں ردیف و قافیہ اور بحر کی تو پابندی ہوتی ہے لیکن ارکان کی تعداد گھٹانے یا بڑھانے پر مصرع گھٹائے یا بڑھائے جاسکتے ہیں۔ اوزان میں مختلف ارکان مستعمل ہوتے ہیں۔ آزاد غزل اور پابند غزل کی ہیئت میں بنیادی فرق ایک ہے یعنی مصرعوں میں ارکان کی کمی بیشی ۔ ورنہ سارے لوازمات قدر مشترک ہیں۔ آزاد غزل بھی ایک ہی بحر میں ہوتی ہے۔ اس میں بھی مطلع و مقطع ہوتا ہے۔ اس میں بھی ہر شعر علیحدہ اکائی ہوتا ہے۔ مسلسل آزاد غزل بھی ہو سکتی ہے۔“ (آزاد غزل: مظہر امام ص 85)

غزل نما ایسی آزاد غزل کو کہتے ہیں جس میں ایک بحر ہوتی ہے، ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں لیکن غزل کے ہر شعر میں دوسرے شعر کے مقابلے میں بحر کے ارکان میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ ظہیر غازی پوری کو غزل نما کا موجد قرار دیا جاتا ہے جنھوں نے1981 میں غزل نما کا پہلا تجربہ کیا تھا، جس غزل میں ایک ہی موضوع کو مختلف مضامین کے ساتھ ادا کیا جائے اس میں نظم کا سائسلسل پیدا ہو جاتا ہے اسی لیے ایسی غزل کو غزل مسلسل یا مسلسل غزل کہتے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر رحمتی اپنی کتاب ”غزل کی تنقیدی اصطلاحات میں لکھتے ہیں ۔ غزل کا ہر شعر مضمون و معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے آزاد ہوتا ہے اور دو مصرعوں میں ایک مکمل نظم کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر شعر کا موضوع ایک دوسرے سے جدا ہو سکتا ہے یعنی ایک شعر میں سیاست کی گفتگو ہے تو دوسرے شعر میں عشق کے احوال بیان کیے جاسکتے ہیں لیکن جب غزل میں ایک ہی موضوع پر مختلف چھوٹے بڑے مسلسل مضمون بیان کیے جاتے ہیں اور غزل کا ہر شعر آزاد ہوتے ہوئے بھی نظم کی طرح ایک دوسرے سے مضمون و معنی کے اعتبار سے متعلق اور مربوط ہوتا ہے تو ایسی غزل کو مسلسل غزل کہتے ہیں ۔ مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کی وہ مشہور غزل جس کا مطلع ” چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے۔ ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یا د ہے مسلسل غزل کی بہترین مثال ہے۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *