عہد صحابہ
صحابہ کا دور وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اور ہجری صدی کے اختتا اختتام تک جاری رہتا ہے۔ اس دور میں صاحب شریعت صلی العلیم کی معصوم ذات موجود نہیں رہی تھی اور آسمان سے نزول وحی کا رشتہ منقطع ہو گیا تھا۔ اس دور کے افراد دین اور اس کے احکام کے مزاج آشنا اور صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔
اس دور کے دو حصے ہیں
خلافت راشدہ کا دور
پہلے حصے میں بڑے بڑے صحابہ موجود تھے۔ خود خلفائے راشدین دنیاوی امور کے ساتھ دینی مسائل میں بھی امتیازی مقام رکھتے تھے۔ پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق کا طریقہ یہ تھا کہ جن مسائل میں قرآن کی آیت موجود ہوتی وہاں قرآن سے فیصلہ کرتے، اگر قرآن میں حکم نہیں ملتا اور سنت رسول صلی ا م مل جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے، اور سنت بھی نہیں ملتی تو صحابہ کو جمع کر کے مشورہ کرتے اور ان کے اتفاق سے فیصلہ فرماتے۔ اسی طریقہ پر حضرت عمر فاروق اور بقیہ خلفائے راشدین بھی چلتے رہے۔ صحابہ کا طریقہ یہ بھی تھا کہ جب نئے مسائل کے اندر قرآن کا حکم یا سنت رسول صلی ا یہ نہیں ملتی تو وہ شریعت کی روح اور مقصود کو سامنے رکھ کر اجتہاد و رائے سے فیصلہ کرتے اور شریعت کے مشابہ مسائل پر قیاس کرتے۔
اس دور میں کچھ صحابہ فقہی مسائل میں زیادہ مشہور ہوئے جو نئے مسائل میں اجتہاد سے فیصلے کرتے تھے ، ان میں ، حضرت علیؓ، حضرت عمر، حضرت عائشہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت معاذ بن جبل زیادہ نمایاں تھے۔ دوسری جانب بعض صحابہ قرآن اور سنت کے ظاہری الفاظ کی پابندی کرتے تھے اور رائے کے استعمال سے گریز کرتے تھے ، ان میں زیادہ نمایاں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ہے۔ اس دور میں بعض مسائل کے اندر صحابہ کے درمیان رائے کا اختلاف بھی ہوا۔ یہ اختلاف کبھی اس لیے ہوا کہ قرآن کے ایک لفظ میں دو معنی کا احتمال تھا، جیسے قرآن کریم کی آیت میں طلاق کی عدت ثلاثة فروء ” بتایا گیا ہے۔ عربی لفظ ” قرء ” دو متضاد معنی میں استعمال ہوتا ہے : (1) حیض کے لیے اور (2) طہر کے لیے، یعنی حیض کے بعد پاکی کے دن۔ یہاں دونوں معنی کا احتمال ہے، چنانچہ بعض فقہاء نے طلاق کی عدت تین حیض قرار دی، جب کہ کچھ دوسرے فقہاء نے اس لفظ کی بنیاد پر طلاق کی عدت تین طہر بتائی۔ کبھی سنت کی سند کو دیکھتے ہوئے اس کے رد و قبول اور اس کے مفہوم کی تعیین میں اختلاف ہوا، جیسے وہ مشہور واقعہ ہے جس میں رسول اللہ صلی للہ ہم نے صحابہ کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ وہ بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں۔ صحابہ روانہ ہوئے۔ راستہ میں ہی نماز عصر کا وقت ختم ہونے لگا تو چند صحابہ نے کہا کہ حکم نبوی کا مقصود یہ ہے کہ ہم جلدی وہاں پہنچیں۔ اب نماز کا وقت نکلا جاتا ہے تو ٹھہر کر عصر پڑھ لیں، پھر سفر جاری رکھیں۔ کچھ دوسرے صحابہ نے کہا کہ نہیں ہم فرمان نبوی صلی الی ایم کے مطابق عصر کی نماز بنو قریظہ پہنچ کر ہی پڑھیں گے۔ ان کا اختلاف رائے برقرار رہا۔ چند صحابہ نے راستہ میں نماز پڑھی، اور بقیہ نے بنو قریظہ پہنچ نے کے بعد ، عصر کی نماز قضاء کر کے پڑھی۔ بعد میں جب دونوں گروہوں نے رسل اللہ علی ایم کو ماجرا سنایا تو آپ صلی ا ہم نے دونوں سے کہا کہ تم نے صحیح کیا ہے۔ اور کبھی غیر منصوص مسائل میں اپنی رائے سے حکم متعین کرنے میں اختلاف ہوا۔ یہ اجتہادی نوعیت کا اختلاف تھا جس کی بے شمار مثالیں ہم مختلف فقہی مسالک میں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ سارے اختلافات صرف جزوی مسائل سے متعلق تھے۔
خلافت راشدہ کے بعد سے پہلی صدی ہجری کے ختم تک
دور صحابہ کا دوسرا حصہ جو خلافت راشدہ کے بعد شروع ہوتا ہے وہ اصاغر صحابہ اور اکابر تابعین کا زمانہ ہے۔ اس میں بڑے صحابہ یا تو بہت کم رہ گئے تھے یا اسلامی مملکت کے مختلف شہروں میں پھیل کر دین و علم کی خدمت میں مصروف تھے۔ ان شہروں میں تابعین نے اپنے اساتذہ صحابہ سے علم و فقہ سیکھا اور اپنے اساتذہ ہی کے نہج پر نئے مسائل میں اجتہادات کیے۔ آپ نے پیچھے پڑھا ہے کہ خلافت راشدہ کے زمانے میں بڑے ( عربی میں اکابر ) صحابہ کے در میان دور جحانات ظاہر ہوئے تھے۔ ایک رجحان والے رائے اور غور و خوض سے کام لیتے تھے ، اور دوسرے رجحان والے رائے کا استعمال نہ کر کے نصوص کے ظاہری الفاظ کی پابندی کرتے تھے۔ جیسا کہ بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھنے والی مثال میں آپ نے دیکھا کہ راستہ میں عصر کی نماز پڑھنے والوں نے حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر غور و خوض کیا اور اس کے مفہوم و مقصود پر عمل کیا جب کہ بعد میں عصر کی نماز قضا پڑھنے والوں نے حکم نبوی یعنی نصوص کے ظاہری الفاظ کی پابندی کی۔ صحابہ کے آخری دور کے اس زمانے میں یہ دونوں رجحان کافی نمایاں ہو گئے۔ اس دور میں ایک بات یہ بھی پیش آئی کہ اسلامی سلطنت کے دائرے میں وسعت کی وجہ سے بہت تیزی کے ساتھ بے شمار نئے مسائل پیش آئے۔ نئی نئی قو میں اور نئے نئے علاقے اسلام کے زیر سایہ آئے۔ وہاں کی تہذیب و تمدن علاحدہ تھی۔ ان کے رہن سہن اور بہت سی چیزوں میں فرق تھا، تو مسلمانوں کے سامنے بہت سارے نئے سوالات بھی امنڈ کر آئے۔ ان میں بہت سے ایسے تھے جن کے جزوی و واضح جوابات قرآن یا حدیث کے اندر اگرچہ موجود نہ تھے، مگر قرآن اور حدیث نے اصولی ہدایات ضرور دے رکھی تھیں اور ان کی روشنی میں ہر قسم کے نئے مسائل حل کئے جاسکتے تھے ، چنانچہ ان کے حل کے لیے تابعین کی جماعت نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے غور و خوض اور اجتہاد کیا۔ انہوں نے قرآن و سنت کی اصولی ہدایات سے استفادہ کیا اور شریعت کے اصول اور مقاصد کو سامنے رکھ کر اجتہادات کیے اور تمام نئے مسائل کے سلسلہ میں شرعی جوابات فراہم کیے۔
اس تفصیل کو پڑھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صحابہ کے دور میں فقہ اسلامی کے اندر کافی وسعت اور پختگی آئی، نئے مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے عملی طریقے اور منابع طے کئے اور بڑے پیمانے پر اس کام کو انجام دیا۔ اس دور میں فقہ اسلامی کی خصوصیات کچھ اس طرح تھیں:
- اس دور میں فقہی مسائل کے استنباط اور اجتہاد کے لیے ابتدائی دو ماخذ یعنی قرآن اور سنت کے ساتھ دوسرے کئی مآخذ کا اضافہ ہوا۔ صحابہ کے باہمی مشورے اور اتفاق سے جو مسائل طے ہوئے، وہ طریقہ “اجماع” کہلایا اور ایک ماخذ (مصدر) بنا۔ پھر انہوں نے اگر نئے مسائل کو قرآن و سنت کے کسی مسئلے کے مشابہ دیکھا تو یکساں حکم نئے مسئلہ میں بھی جاری کیا، یہ طریقہ ”قیاس “ کہلایا اور چو تھا ما خذ بنا۔ اس طرح نئے مسائل کے حل کے لیے شریعت کے مقاصد کو سامنے رکھ کر استدلال اور اجتہاد کیا گیا جس میں رائے کا استعمال ہوا، جو استدلال کے فرق کے لحاظ سے “استحسان”، “استصلاح “ اور دوسرے ناموں سے مشہور ہوا۔ اور استدلال کے یہ طریقے ثانوی مآخذ ہے۔ ان ثانوی مآخذ کا تعارف آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں۔
- دور صحابہ میں اجتہادی مسائل کے اندر رایوں کا اختلاف ہوا۔ یہ اختلاف صرف فروعی قسم کے مسائل سے متعلق تھا۔ اختلافی مسائل میں صحابہ کے درمیان تمام رائیں قابل احترام سمجھی گئیں، کیونکہ ہر رائے کے پیچھے سری دلیل موجود تھی، اور وسعت و آسانی کے لیے اختلاف کی گنجائش باقی رکھی گئی تھی۔
- استدلال کے دونوں رجحان اس دور میں نمایا ہو ے ۔ رائے کا استعمال کرنے والے فقہاء اہل الرائے “ کہلائے اور دوسرے علماء ”اہل الحدیث “ کے نام سے معروف ہوئے۔ لیکن سبھی علماء و فقہاء کے سامنے قرآن اور حدیث ہی بنیادی مآخذ رہے اور ان کے بغیر کسی حکم کا استنباط نہیں کیا گیا۔ صرف ان کے غالب رجحان کی وجہ سے وہ حدیث یارائے کی نسبت سے مشہور ہوئے۔
- اس دور میں فقہ اور حدیث کے فن باہم ممتاز ہوئے۔ فقہ و فتاوی میں مشغول رہنے والے اصحاب ”فقہاء“ کہلاتے تھے۔ دوسری جانب محد ثین تھے جو حدیث کی روایت اور اس کی استنادی حیثیت کی تعیین میں مصروف رہے۔
- اس دور میں فقہ اسلامی کا تعلق عملی اور واقعاتی مسائل کے ساتھ رہا، یعنی جو مسائل پیش آئے ان کا جواب دیا گیا۔ مفروضہ مسائل کے احکام نہیں نکالے گئے۔