عورت کے حقوق کے معاملے میں دین اسلام کا دوسرے مذاہب سے موازنہ

فہرست

عورت کے حقوق کے معاملے میں دین اسلام کا دوسرے مذاہب سے موازنہ

عورت کے حقوق کے معاملے میں اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بہت اونچ نیچ دیکھنے میں آئی ہے ۔ کئی ایسے بھی معاشرے گزرے ہیں کہ جہاں لوگوں نے عورت کو اتنا سر پر چڑھایا کہ عورت کی عبادت ہی شروع کر دی ، اس کے بت بنا کر رکھ دیے۔ اور ایسا بھی وقت آیا کہ عورت کو اتنا ذلیل کیا گیا کہ اس کے وجود کو بھی برداشت نہ کیا گیا۔ 

چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو عرب لوگوں کے ماحول میں بیٹی کا پیدا ہونا ایک بری بات سمجھی جاتی تھی ۔ جس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی وہ چھوٹی سی معصوم بچی کو زمین میں زندہ دفن کر دیا کرتا تھا۔ کتنی حیوانیت کی بات ہے کہ ایک معصوم بچی کو زمین کے اندر زندہ دفن کر دیا کرتے تھے ! گھر میں بیٹی کے نام کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ کے باہر قبرستان تھا جس میں ایسی بچیوں کو دفن کیا جاتا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی فرمایا :

وَإِذَا الْمَوْدَةُ سُبِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ 

اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا ، اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا ؟

اب ایک ایسا معاشرہ جس میں بیٹی کا وجود بھی برداشت نہ کیا جا سکتا ہو اس میں بیٹی کے حقوق کی بات کرنا یا بیٹی سے محبت پیار سے پیش آنے کی بات کرنا ایک بہت مشکل کام تھا، مگر اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں پر احسان فرمایا اور لوگوں کو ان کے حقوق بتائے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ اُن کی اچھی تربیت کر کے اُن کو ادب سکھائے اور پھر بالغ ہونے پر ان کی شادی کر دے اور اُن کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہے۔ [ سنن ابی داؤد، حدیث: ۵۱۴۹]

اس معاشرے میں بیٹی کو عزت اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائی ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک صحابی آئے اور عرض کرنے لگے : اے اللہ کے حبیب ! میں نے اپنی زندگی میں بہت بڑے بڑے گناہ کیے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلام لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیتے ہیں ۔ یہ سن کر اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر کہنے لگے : اے اللہ کے حبیب ! اس گناہ کو بتاتے ہوئے بھی مجھے اس وقت ندامت ہو رہی ہے کہ میں انسان تھا یا حیوان تھا۔ میں نے یہ گناہ کر کیسے لیا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اُسے سمجھایا کہ اسلام سے پہلے کے جتنے بھی گناہ ہوتے ہیں اللہ تعالی معاف فرما دیتے ہین۔ پھر وہ صحابی کہنے لگے : اے اللہ کے حبیب ! ہمارا معاشرہ ایسا تھا کہ گھر کے اندر ہم بیٹی کے وجود کو پسند ہی نہیں کیا کرتے تھے۔ جس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی وہ چھوٹی سی معصوم بچی کو زمین کے اندر زندہ دفن کر دیا کرتا تھا۔ میرا بھی یہی ذہن تھا۔ 

ایک مرتبہ میری بیوی حاملہ تھی اور میں تجارتی سفر کے لیے کہیں چلا گیا ۔ جب واپس آیا تو پتہ چلا کہ بیوی حمل سے فارغ ہو چکی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے ہاں کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ بیٹی کی ولادت ہوئی تھی اور میں نے بیٹی کو ٹھکانے لگا دیا۔ میں مطمئن ہو گیا کہ چلو قصہ تمام ہو گیا ، مگر حقیقت یہ تھی کہ میری بیوی نے اپنی بیٹی کو اپنی بہن کے ہاں دور بھیج دیا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ اتنی آمد و رفت عام نہیں تھی مہینوں اور سالوں کے بعد رشتہ دار ایک دوسرے کو ملتے تھے، تو صحیح خبر کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ 

چنانچہ یہ بچی میری بیوی کی بہن کے گھر پلتی رہی حتی کہ یہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی کبھی وہ بہن میری بیوی کو ملنے کے لیے آتی تو یہ بچی بھی ساتھ ہوتی ۔ میں اُسے اپنی سالی کی بیٹی ہی سمجھتا رہا۔ اب چھوٹی بچی جب گھر میں آتی تو کبھی مجھ سے بات کرتی کبھی مجھے دیکھتی کبھی ہنستی مسکراتی، تو مجھے اچھی لگتی ۔ میں اس چھوٹی سی بچی کے ساتھ محبت سے پیش آتا حتی کہ چند مرتبہ آنے کے بعد مجھے اس بچی کے ساتھ ایک تعلق سا محسوس ہونے لگا۔ وہ میرے ساتھ محبت کا اظہار کرتی ، میں اُسے اپنی گود میں بٹھاتا ، اُس سے کھیلتا اور بات چیت کرتا ۔ جب میری بیوی نے دیکھا کہ اس بچی کے ساتھ میری محبت کا رشتہ مضبوط ہو گیا ہے تو ایک دن اس نے یہ راز کھول دیا کہ یہ میری بہن کی بیٹی نہیں ، یہ تو میری بیٹی ہے۔ میں نے اسے اپنی بہن کے ہاں بھیج دیا تھا۔ دیکھیں ! ہماری بیٹی کتنی خوبصورت ہے، کتنی پیاری ہے، کتنی معصوم باتیں کرتی ہے ! میں نے بیوی کی بات تو سن لی لیکن میرے اندر جو حیوانیت تھی وہ بیدار ہوگئی اور میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں اس لڑکی کو زندہ دفن کر دوں گا ۔

فرماتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے ایک کام کے لیے جانا ہے اور میں بچی کو ساتھ لے جاؤں گا۔ اس نے کہا: بہت اچھا! لے جاؤ۔ میں نے اس چھوٹی بچی کو اپنے ساتھ لیا اور میں نے راستے میں ایک کدال خریدا اور شہر سے باہر جا کر ایک جگہ میں نے گڑھا کھودنا شروع کر دیا۔ میں گڑھا کھود رہا تھا اور وہ چھوٹی بچی میرے پاس کھڑی تھی۔ تھوڑی سی مٹی میرے کپڑوں پر گری تو بچی نے اس مٹی کو جھاڑا اور مجھے کہنے لگی : آپ کے کپڑوں پر مٹی پڑ رہی ہے ۔ مگر اس بچی کی ان معصوم باتوں کا میرے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں گڑھا کھودتا رہا کھودتا رہا حتی کہ جب میں نے گڑھا کھو د لیا تو میں نے بچی کو زبردستی پکڑا اور اس گڑھے کے اندر پھینک دیا۔ پھر میں نے اس کے اوپر مٹی ڈالنا شروع کر دی ۔ وہ بچی رونے لگی۔ اس نے مجھے پکارا کہ میرے بالوں میں مٹی پڑ رہی ہے، میری آنکھوں میں مٹی پڑ رہی ہے، مگر میرے اوپر ایسی حیوانیت سوار تھی کہ میں نے اس بچی کی آواز کا ذرا خیال نہ کیا اور میں مٹی ڈالتا رہا، ڈالتا رہا حتی کے وہ بچی زندہ دفن ہو گئی اور اس کی آواز آنا بند ہوگئی ۔ جب میں نے اس کو زمین میں دفن کر لیا تو واپس گھر آ گیا اور بیوی کو بتا دیا ۔ بیوی بے چاری کیا کہہ سکتی تھی ؟ وہ یہ سن کر خاموش ہو گئی ۔ 

اے اللہ کے حبیب ! ایک زندگی کا وقت وہ بھی تھا کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندہ بیٹی کو دفن کیا۔ پھر آپ تشریف لائے اور آپ نے آکر ہمیں انسانیت سکھائی ، دین سکھایا اور آپ نے ہمیں چھوٹے بچوں کے ساتھ پیار اور محبت سے رہنا سکھایا۔ اب یہ بیٹی جو میں نے اُٹھائی ہوئی ہے یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے، میری اپنی کوئی بیٹی نہیں ہے، لیکن اب ہمارے دلوں میں چھوٹے بچوں کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں اپنے بھائی کی بیٹی کو بھی اُٹھاتا ہوں اور اس سے پیار کا اظہار کرتا ہوں ۔ اللہ رب العزت کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ بیٹی کا وجود اللہ کی رحمت ہوتا ہے۔

عام طور پر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ بیٹے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر ان کے چہروں پر سیاہی آجاتی ہے۔ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

یہ ضرور ہے کہ بیٹے کی پیدائش پر ماں باپ کو زیادہ تحفظ محسوس ہوتا ہے کہ ایک لڑکا پیدا ہو گیا، یہ بڑا ہوگا تو کاروبار کرے گا ، نوکری کرے گا ، کمائے گا اور گھر کے افراد کے ساتھ تعاون کرے گا۔ اور بیٹی پیدا ہوتی ہے تو عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ پہلے نمبر تو یہ بچی کاروبار نہیں کر سکتی اور اگر کرے بھی سہی تب بھی اس کی حفاظت کا ساری زندگی مردوں کو ہی خیال رکھنا پڑے گا۔

پھر بیٹے کے پیدا ہونے سے انسان کی نسل آگے چلتی ہے ، نام آگے چلتا ہے، اور بیٹی تو کسی دوسرے کے گھر کی زینت بنتی ہے۔

اس لیے لوگ بیٹے کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر کم خوش ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بیٹے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے، بیٹی کی پیدائش پر بھی اسی طرح خوشی کا اظہار کرنا چاہیے ۔ ہماری شریعت اتنی خوبصورت ہے کہ حکم دیا گیا کہ جب کسی کے ہاں بیٹی یا بیٹا پیدا ہو تو وہ ساتویں دن عقیقہ کرے۔ یہ اللہ کے شکر کا اظہار ہے کہ اللہ ! آپ نے ہمیں ایک نعمت سے نوازا ہے۔ یعنی خوشی کا۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یہ بھی پڑھیں