جو عورت آنکھ کو نہ لگے وہ دل کو کیا لگے گی
عورت کو شوہر کے لئے بننا سنورنا اسلام میں پسندیدہ فعل ہے
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ خواتین دن بھر کے کام کاج کو انجام دے کر اس قدر تھک جاتی ہیں کہ شام ہوتے ہوتے ذہنی اور جسمانی تھکن سے چور ہو جاتی ہیں۔
صبح سویرے اٹھنا، بچوں کے لئے اور شوہر کے لئے ناشتا بنانا، بچوں کو کھلانا پلانا، انہیں تیار کر کے اسکول بھیجنا، پھر صفائی کرنا، دوسرے کام نمٹانا، دو پہر کے وقت سے پہلے پہلے ان کاموں کو نمٹا کر دو پہر کا کھانا بنانا تا کہ بچوں کو اسکول سے لوٹتے ہی کھانا تیار ملے۔ غرضیکہ کاموں کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے۔
بچوں کی آمد کے بعد بھی کئی کام ہوتے ہیں جو خواتین کو انجام دینے ہوتے ہیں۔ اگر کچھ وقت دوپہر سے سہ پہر کے بیچ مل گیا تو آرام کر لیتی ہیں ورنہ پھر شام کے کام۔ شوہر کے گھر لوٹنے کا وقت ہو جاتا ہے اور کام ہے کہ پھر بھی تکمیل کو نہیں پہنچتا۔
ایسے میں شوہر گھر تشریف لاتے ہیں اور گھر میں چاروں طرف بکھرے کپڑے، کھلونے اور دیگر سامان کو دیکھ کر ان کا موڈ کچھ بگڑ جاتا ہے۔
بچوں کا بے ہنگم شور ناگواری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ کچن سے نکلتی ہوئی اپنی بیگم کو ملگجے سے لباس، الجھے الجھے بالوں اور تھکے تھکے سے چہرے کو دیکھ کر موڈ مزید بگڑ جاتا ہے۔ وہ ایک کپ چائے کی فرمائش کرنا چاہتے ہیں مگر بیگم کی بیزار سی صورت انہیں ایسا کرنے سے روک دیتی ہے۔ نتیجتاً شوہر کا دل چاہتا ہے کہ چلو بھاگ چلو، کہیں دور صاف ستھری جگہ پر، جہاں بچوں کا شور نہ ہو، کوئی بیزار سی شکل نہ ہو، کوئی مسکرا کر اس کا استقبال کرنے والا ہو، بہت خوشگوار ماحول میں جہاں چائے کا لطف دوبالا ہو اور جہاں سکون کے چند لمحے میسر آسکیں مگر یہ سب کچھ ممکن نہیں ہوتا اس لئے شوہر چڑ چڑا سا ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ محنتی اور جفاکش ہوتی ہیں، زیادہ ذمہ دار ہوتی ہیں، گھر گرہستی کے کام میں ان کی دلچسپی نہ ہو تو گھر، گھر نہیں رہتا۔ خواتین صبح سے شام تک گھریلو ذمہ داریاں پوری تندہی کے ساتھ انجام دیتی ہیں مگر خواتین سوچ کر بتائیں کہ کیا آپ کے جسم کا آپ پر کوئی حق نہیں ہے؟ کیا آپ کے شوہر کا آپ پر کوئی حق نہیں ہے؟ آپ شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کیوں نہیں کرتیں؟
شوہر کے لئے بننا سنورنا اسلام میں پسندیدہ فعل ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ سے واپسی کے بعد ہم اپنے گھر جانے لگے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بھی رک جاؤ اور رات کو اپنے اپنے گھر جاؤ تا کہ جس عورت نے کنگھی چوٹی نہیں کی ہے وہ کنگھی چوٹی کرلے اور جس عورت کا شوہر غائب تھا وہ نہا دھو کر صاف ستھری ہو جائے (بخاری، کتاب النکاح، باب الولد، مسلم كتاب الرضاع باب استحباب نكاح البكر )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوعورتوں کا کتنا خیال تھا کہ لاعلمی میں وہ الجھے بالوں اور گندے میلے لباس میں اپنے شوہروں کے سامنے نہ آجائیں اس لئے انہیں نہا دھو کر کنگھی چوٹی کرنے کی مہلت دینا چاہتے تھے تا کہ شوہر کے دل میں بیزارگی یا نفرت کا جذبہ نہ پیدا ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں اپنے خاوندوں کی خاطر زیب و زینت کا سامان کیا کرتی تھیں۔ اس کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیوی کو دیکھا کہ اسباب زینت سے یا جن سے اس دور کی عورت شوہر کی موجودگی میں بالعموم آراستہ ہوتی تھی، خالی تھیں۔ آپ نے فوراً دریافت کیا “کیا عثمان کہیں سفر پر گئے ہوئے ہیں؟“ (مسند احمد، جلد ۲ ، ص: ۱۰۶) یعنی حضرت عائشہ نے حضرت عثمان کی بیوی کو تمام لوازمات سے آراستہ نہیں دیکھا تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ حضرت عثمان بن مظعون کہیں باہر گئے ہوئے ہیں، گھر پر موجود نہیں ہیں۔
خواتین کو شوہروں کی دل بستگی کے لئے، اپنے آپ کا، اپنی صحت کا، اپنے رہن سہن کا، اپنے لباس و زینت کا خیال رکھنا چاہئے، دن بھر کے کام کا ٹائم ٹیبل اس طرح ترتیب دیں کہ سارا کام شوہر کے آنے سے پہلے نمٹ جائے، اگر کچھ باقی بھی رہ جائے تو حرج نہیں ہے، آپ اسے بعد میں بھی کر سکتی ہیں۔ آپ نہا دھو کر تیار ہو جائیں اور جب صبح کے گئے تھکے ماندے شوہر گھر آئیں تو انہیں ایک اچھا، خوشگوار سا ماحول دیں، ان کا مسکرا کر استقبال کریں، آپ کی مسکراہٹ دیکھ کر ویسے ہی ان کی آدھی تھکان دور ہو جائے گی۔
خوش کن باتیں کریں، دن بھر کے کمر توڑ کام کا رونا نہ روئیں۔ آپ کی محنت و مشقت ان سے چھپی تو نہیں رہتی، وہ آپ کی جانفشانی کا دل میں اعتراف کرتے ہیں، دل ہی دل میں تعریف بھی کرتے ہیں۔ ہاں کچھ مرد تعریف کے معاملے میں کنجوس ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کی خدمات کے معترف نہیں ہیں۔ اگر مرد حضرات بھی اپنی بیوی کی محنت اور لگن، زندگی کے تئیں ان کی ایمانداری اور سنجیدگی کا کھلے دل سے اعتراف کریں تو بیوی کے لئے شوہر کے چند پیار بھرے الفاظ قوت بڑھانے کی ٹانک ثابت ہوں گے۔