علی گڑھ تحریک اور اردو غزل
پہلی نا کام جنگ آزادی یعنی 1857 کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں علی گڑھ تحریک کے نام سے جانتے ہیں۔ چوں کہ اس تحریک کے بانی سرسید احمد خاں تھے اس لیے اس تحریک کو سرسید تحریک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سرسید نے اس تحریک کا آغاز 1857 سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ نازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بار آور کرنے میں بڑی مددگار ثابت ہوئی لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کار فرما تھے۔ مثالا راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس کے علاوہ مغلیہ سلطنت کا زوال بھی اس تحریک کا محرک ثابت ہوا۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم بر پا کر دیا۔ اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا اور انھوں نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ اس تحریک کے آغاز میں سرسید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تحمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے اور ہندوؤں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورنا کلر یونیورٹی کی تجویز پر ہندوؤں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھا اور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبودگی میں مصروف ہو گئے ۔ 1869 میں سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا۔ یہاں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندستان میں بھی کیمبرج یونی ورسٹی کے طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں۔ وہاں کے اخبارات اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اس قسم کا اخبار ہندستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجرا کیا۔ اس رسالے میں ایسے مضامین شائع ہوتے جن میں سماجی اصلاح کا عصر غالب ہو۔ شعری اصناف میں علی گڑھ تحریک سے وابستہ شعرا نے قصیدہ ، مرثیہ، غزل جیسی مقبول اصناف کے بجائے مثنوی اور نظم جیسی اصناف کو کار آمد صنف قرار دیا۔ علی گڑھ تحریک نے غزل کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا سبب خود سر سید احمد خان یہ بتاتے ہیں کہ ہماری زبان کے علم وادب میں بڑا انقصان یہ تھا کی نظم پوری بیتھی ۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں میں صرف کی تھی ۔ اس بنا پر سرسید احمد خان نے نغزل کی ریزہ خیالی کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی سعی کی نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے الطاف حسین حالی سے مسدس حالی لکھوائی اور پھر اسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔

سرسید کی غزلیں
سرسید احمد خان شاعری کے مخالف نہ تھے بلکہ وہ خود ایک شاعر تھے اور آہی، تشخص رکھتے تھے۔ وہ مروجہ شعری اصناف کے بھی مخالف نہیں تھے بلکہ وہ شعری اصناف کو نیچرل شاعری کے قریب لانا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں جب کرنل بالرائڈ کی سر پرستی میں جدید نظم کی بنیاد پڑی تو ان کے رفقا نے نیچرل شاعری کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اب رہ جحان کیا ہونے والا ہے ۔ چنانچہ سرسید احمد خان کے ان نظریات کا اثر یہ ہوا کہ اردو نظم میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیدا ہوئی۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ تحریک کے ایک رکن عبد الحلیم شرر نے سر گرم حصہ لیا اور رسالہ دلگداز میں کئی عمدہ نظمیں شائع کیں۔ اس کے بعد نظم جدید کے ساتھ غزل کے موضوعات میں بھی تبدیلی آئی۔ اردو غزل کے حوالے سے ناقدین کی جانب سے جو بھی اعتراضات ہوئے ، وہ ہیئت کے بجائے موضوعات کے حوالے سے تھے۔ اسی عہد میں حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر شاعری کے اصول وضوابط طے کیے۔ اس تحریک کو سمت اور رفتار دینے والوں میں سرسید احمد خاں، خواجہ الطاف حسین حالی شبلی نعمانی نذیر احمد محسن الملک ، ذکا اللہ، وقار الملک اور چراغ علی و غیرہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
سرسید تحریک کے زیر اثر اردو غزل کی آبیاری کرنے والے شعرا میں سب سے پہلا نام حالی کا آتا ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالی 1837۔ 1914 اردو میں کئی حیثیت سے مشہور ہیں۔
انھوں نے غزلیں بھی کہیں نظمیں بھی لکھیں ، ناول بھی لکھا اور نثری نمونے بھی پیش کیے۔ سوانح نگاری کا آغاز بھی کیا تو تنقید نگاری کی داغ بیل بھی ڈالی۔ اس ضمن میں غزلوں کی بات کی جائے تو انھوں نے کلاسیکی شعریات سے انحراف کرتے ہوئے کئی عمدہ غزلیں بھی کہی ہیں۔
اشعار
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
حالی کی غزلیں
حالی کا دیوان مختصر ہے لیکن اردو غزل کا رخ بدلنے اور اس میں انقلاب بر پا کرنے کی وجہ سے بہت کم دو اوین اس کے ہم پلہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ حالی کی غزل گوئی کا سلسلہ تقریبا چالیس برسوں پر محیط ہے۔ حالی کی غزل میں موضوعات کا تنوع ہے۔ سیاسی حالات، اخلاقی و عمرانی تصورات، قوم کی بربادی پر نوحہ اورقومی تعمیر نو کا جذبہ ان کی غزلوں میں نمایاں ہے۔ حالی قدیم اسلوب کو بدستور قائم رکھتے ہوئے زبان و بیان کے اسالیب میں بتدریج اضافوں کے حامی ہیں۔ حالی کی دور اول کی غزلوں میں میر، غالب، مؤمن اور شیفتہ کے رنگ و آہنگ کی گونج سنائی دیتی ہے مگر اس کے باوجود حالی کی غزلوں کا اپنا الگ مزاج اور رنگ ہے جس میں ان کی اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس دور کے سیاسی و سماجی حالات بھی منعکس ہوتے ہیں۔ بقول صالحہ عابد حسین: انھوں نے اپنے روحانی استادوں اور زندہ استادوں سے اپنی طبیعت اور صلاحیت کے مطابق استفادہ کیا تھا۔ میر سے درددل لیا اور درد سے تصوف کی چاشنی ۔ غالب سے حسن تخیل، ندرت تفکر اور شوخی گفتار سیکھی اور سعدی سے بیان کی سادگی اور معنی کی گہرائی ۔ شیفتہ سے سیدھی بچی باتوں کو محض حسن بیان سے دلفریب بنانے کافن۔ اور ان سب کی ترکیب سے حالی کی غزل کا ہیولی تیار ہوا ۔
حالی کی غزل کے موضوعات میں تنوع اور نیا پکنا ہے۔ بہت سے اشعار میں روایتی مضامین باندھ کر جدت پیدا کی گئی ہے۔ علامات اور تلازمات کے سلسلوں کو وسیع کیا گیا ہے ۔ غزل میں پہلی بار سماجی مضامین کو جگہ دی گئی ہے۔ حالی نے علامتوں کے ذریعے انگریزوں کے ظلم وستم استحصال، جبر و استبداد، ویسی اور انگریزی لوگوں میں عدم مساوات اور نسلی کمتری اور برتری کا نقشہ کھینچا ہے ۔ چند اشعار :
اشعار
ہم جس پر مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
ہم نےہر ادنی کو اعلی کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
تم کو ہزار شرم کی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ رازہے کہ چھپایا نہ جائے گا
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اس سے بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے وکاں سب سے الگ
حالی اردو غزل کی تہذیب دروایت سے بخوبی واقف تھے۔ انھوں نے غزل کے موضوعات میں وسعت بخشی بنئی تراکیب استعمال کر کے حسن کو دو بالا کیا اور تہذیب کے دائرے میں تمام باتیں کہہ ڈالیں۔ سوز و گداز کے موضوعات میں وسعت پیدا کی اور کسی بات کو لطیف پیرائے میں بیان کیا۔ بہ قول رشید احمد صدیقی :
حالی کی غزلوں میں جذبات کی جیسی شائستگی ، لہجہ کی نرمی ، خیال کی بلندی، پاکیزگی، بیان کی سادگی اور فن کی پختگی ہے، اور شاعری و شرافت کا جیسا امتزاج و تو ازن ملتا ہے۔ مجموعی طور پر کسی اور غزل گو کے یہاں مشکل سے نظر آئے گا۔ حالی غزل کے سارے لوازم برتتے ہیں لیکن ان میں کسی کو اس کے حدود سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔”
علامہ شبلی نعمانی کی غزلیں
علی گڑھ تحریک کا ایک اہم نام علامہ شبلی نعمانی کا ہے۔ وہ بحیثیت مورخ ، عالم فلسفی اور ناقد معروف ہیں لیکن وہ ایک شاعر کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں۔ شبلی کی تحریروں نے ہمارے شعر و ادب کو آفاقی وسعتوں نے روشناس کیا ہے۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں مذہبی اور اخلاقی شاعری کی لیکن یہاں ہمیں سرد کار اردو شاعری سے ہے۔ ان کا گرچہ اردو شاعری میں نثر کے جیسے مقام نہیں ہے، لیکن ان کی شاعری اور خصوصا ند ہی شاعری توجہ طلب ہے۔ شبلی کی مذہبی اور اخلاقی نظمیں دراصل منظوم قصے ہیں ۔ انھوں نے اسلامی قصوں کو اخلاقی نقطہ نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اسلام کی اخلاقی قدروں کا شاعرانہ اور تاریخی شکوہ کے ساتھ قائم کرنے میں انھیں اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ اسلامی مساوات ، اخوت علم و عفو اور حق و صداقت جیسے اہم موضوعات پر لکھی گئی نظمیں در اصل اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ شبلی نے اپنی نظموں میں اخلاقیات کا سہارا لیا ہے اور انھوں نے مذہبی و اخلاقی نظموں میں ہجرت نبوی ، اہل بیت کی زندگی ، ایثار کی اعلیٰ ترین نظیر وغیرہ جیسے موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں۔ انھوں نے چند غزلیں بھی لکھی ہیں لیکن غزالوں کا رجحان بھی مذاہی زیادہ ہے۔ ملاحظہ ہوں یہ اشعار
اشعار
دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا
قتل ہوکر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردن پر احسان رہ گیا
دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلی
خوب گزرے فلک دوں سے جو یاری کر لوں
اردو ادب کے فروغ میں علی گڑھ تحریک کا کارنامہ نہایت عظیم الشان ہے۔ یہ اسی تحریک کا کارنامہ ہے کہ اردو نثر جس کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا اور اردو شاعری جس کا بیشتر سرمایہ حسن و عشق کی داستان تک محدود تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اس منظر اور نظم دونوں نے ترقی کرتے ہوئے بہت ہی منزلیں طے کر لیں ۔ سرسید جانتے تھے کہ دنیا میں شاعری سے بڑے کام لیے گئے ہیں۔ حالی نے تو مقدمہ شعر و شاعری میں اس کی کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ سرسید کی خواہش تھی کہ اردو شاعری مفید اور کارآمد ہو۔ ہوتی ہوئی قوم کو بیدار کرنے میں مدد دے اور زندگی کو بہتر بنانے کا فریضہ ادا کرے۔ آگے چل کر اقبال نے قوم کی بہتری کے لیے جو شاعری کی، اسے سرسید کے خواب کی تعبیر کہنا چاہیے۔ مختصر یہ کہ سرسید اور علی گڑھ تحریک نے اردو شعر و ادب کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب بر پا کر دیا۔ اس تحریک کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ سرسید تحریک کے آخری دور اور انیسویں صدی کے نصف اول میں اردو غزل نے نیا رخ اختیار کیا۔ اس عہد میں بہت سے معتبر شعر ادبی افق پر نمودار ہوئے اور انھوں نے اردو غزل کو مالا مال کر دیا۔ ایسے شعرا کی فہرست میں اقبال ، فانی، حسرت ، اصغر ، یگانہ اور جگر جیسے شعرا کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
علامہ محمد اقبال کی غزلیں
علامہ محمد اقبال (1877 – 1938) میر و غالب کے بعد سب سے اہم شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یوں تو ان کی بنیادی پہچان نظموں کے حوالے سے ہے لیکن ان کی غزلوں میں بھی وہ شان ہے جس کی وجہ سے وہ قابل قدر ہیں ۔ اقبال نے جس عہد میں شاعری کا آغاز کیا وہ داغ دہلوی کے عروج کا دور تھا۔ داغ اپنے زمانے کے مشہور اساتذہ میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی غزل گوئی سے متاثر ہو کر اقبال نے بھی ان کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی ابتدائی غزلوں میں داغ کا رنگ نمایاں ہے لیکن بعد کے دور میں انھوں نے اپنی علاحدہ شناخت بنائی اور اردو کے ساتھ فاری شاعری میں اپنا مقام پیدا کیا۔ ان کی شعری کائنات کی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عقیل احمد صدیقی رقمطراز ہیں:
اقبال کی شاعری تصورات کی شاعری ہے لیکن جو صفت تصورات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ افکار کے حسی متبادل تلاش کیے جائیں تا کہ افکار کو جذ بہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک گھر نہ رہ کر ایک حسی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور ایک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کرلے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے ۔
اقبال کے اردو میں چار مجموعے شائع ہوئے۔ بانگ درا، بال جبریل ، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں فقر و درویشی تصوف و مذہب ، معاشرت اور وطن پرستی ، مرد مومن جیسے موضوعات کو مکمل طور پر شاعری میں پیش کیا ہے۔ اقبال کی شاعری میں فکر اور تخیل کی بلند پروازی ہے۔ لفظی رعایتوں کو برتنے میں اقبال کو قدرت کمال حاصل ہے۔ ان کی شاعری شاعرانہ رمز نگاری کی بہترین مثال ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اشعار
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسمان اور بھی ہیں
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
جو میں سر بہ سجدہ ہوا بھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اس کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
شوکت علی خان فانی بدایونی کی غزلیں
شوکت علی خان فانی بدایونی (1879-1941) نو کلاسیکی شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھیں یا سیت کا امام بھی کہا جاتا ہے۔ حزن و پاس اُن کے کلام کا جزو اعظم ہے۔ فانی غم ہی کو زندگی تصور کرتے تھے اور فانی اس طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے جو اُن کی تمناؤں سے ہم آہنگ نہ تھی۔ فانی کی شاعری جس چیز کے بارے میں مشہور ہے اور جو ان کی پہچان بن گئی ہے، وہ فانی کی شاعری میں موت ، کفن، قبر اور میت کا استعمال ہے۔ فانی ان ڈراؤنی چیزوں کو دل میں لپیٹ لیتے ہیں اور موت ، کفن، قبر اور میت کو ایک خوبصورت چیز بنا دیتے ہیں۔ وہ اس میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور ان کے درمیان سکون و اطمینان تصور کرتے ہیں۔ فانی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ فسادات کا دور تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک کازمانہ جس نے ان کو غم برتنے پر مجبو کر دیا۔ فانی کے یہاں پاس نجم والم جذ باتی یا خمی نہیں ہے بلکہ ان کا غم آفاقی ہو جاتا ہے۔ ملاحظہ ہوں یا اشعار
اشعار
فانی وہ بلاکش ہوں تم بھی مجھے راحت ہے
میں نے غم راحت کی صورت بھی نہ پہچانی
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
نا امیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بہتی ہے
سید فضل الحسن حسرت موہانی کی غزلیں
سید فضل الحسن حسرت موہانی ( 1878 – 1951) کا شمار بھی مرزا غالب کے عہد کے بعد کے شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے اعلا تعلیم حاصل کی اور ادب کے ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی لی۔ حسرت خالص غزل کے شاعر ہیں اور یہی ان کا میدان خاص بھی ہے۔ انھوں نے فضا کو بدل کر اردو غزل کو تنزل کے صحیح رنگ سے آشنا کیا۔ سچے جذبات کو غزل کی زبان میں بغیر کسی تکلف اور تصنع کے ادا کیا۔ حسرت نے اردو نزل کی حزنیہ لے کو بدلا اور تغزل کے اشعار کو مریضانہ نم پرستی سے بچایا۔ انھوں نے فطری جذبات کا اظہار ایک نشاطیہ انداز میں کیا۔ ان کے یہاں حسن و عشق کا تصور روایتی اور فرسودہ نہیں ہے۔ ان کی زبان بلاشبہ لکھنو کی معیاری زبان ہے اور ان کا تغزل دہلی کا صیح اور سچا تغزل ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے قدیم دہلوی شعرا کی تقلید کر کے اپنی شاعری میں اعلا معیار سے تخلیقی جوہر کو پیدا کیا۔ مومن کی طرح حسرت کی غزل میں بھی عشق کی ساری کیفیتیں اور حسن کے سارے روپ موجود ہیں۔ ان کے ہاں عشق میں واقعیت بھی ہے اور حسن عشق کا سچا اظہار بھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے تصوف کے موضوع کو بھی اپنی شاعری میں برتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے خصوصیت کے ساتھ غزل کو نئے اور اچھوتے تصور سے آشنا کیا۔ حسرت نے انسانی زندگی میں عورت اور اس کے حسن کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔ ان کا محبوب وہی ہے عورت ہے جس کے دم سے زندگی میں رنگینی ہے، ساتھ ہی ان کے یہاں عورت کا حسن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ملتا ہے۔ انھوں نے اس کے حسن کی ہر ادا کو شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ ملاحظہ ہوں یا اشعار:
اشعار
چوری چوری ہم سے تم آکر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے
دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوه عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
مرزا واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی عظیم آبادی کی غزلیں
مرزا واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی عظیم آبادی (1884 – 1956) ایک نزل گو کی حیثیت سے کم اور غالب شکن کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں۔ ان کا اسلوب فکر اردو غزل گوئی کے جدیدر خان سے واضح طور پر ممتاز ہے۔ ان کی غزلوں میں زور کلام کے ساتھ تیز اور تیکھا کر دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے خیال کو صداقت اور ہیبا کی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنی شاعری میں یگانہ تھے۔ انھوں نے کسی کی تقلید نہیں کی۔ لکھنو اسکول میں آتش کے بعد یگا نہ ہی سب سے منفر د شاعر ہیں جن کی آواز سب سے اللہ محسوس ہوتی ہے۔ یگانہ کا لکھنو کا قیام بڑا ہنگامہ خیز اور معرکہ آرا رہا، جس کا اثر ان کے فن پر بھی پڑا ۔ معرکہ آرائیوں نے بھی ان کے فن کو جلا بخشی۔ شروع میں لکھنو کے شعر اسے ان کے تعلقات خوشگوار تھے۔ اتناہی نہیں و عزیز جعلی ثاقب و محشر وغیرہ کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرتے تھے۔ جب عزیز کی سر پرستی میں رسالہ معیار جاری ہوا اور معیار پارٹی وجود میں آئی تو یگانہ بھی اس پارٹی کے مشاعروں میں غالب کی زمینوں میں نغزلیں پڑھتے تھے۔ ان طرحی مشاعروں کی جو غزلیں معیارمیں چھپی ہیں، ان میں بھی یگانہ کی غزلیں شامل ہیں۔ لیکن تعلق بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا اور لکھنو کے اکثر شعرا سے یگانہ کی چشمک ہوگئی۔ یگانہ ایک کلاسیکی غزل گو شاعر تھے۔ حالانکہ انھوں نے قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں لیکن ان کی اصل پہچان ان کی غزلیں ہی ہیں۔ انھوں نے غزل کے موضوعات کے دائرے کو ایک نئی جہت اور اونچائی عطا کی اور ایسے مضامین نظم کیے جو پہلی بار حقیقت پسندانہ کیفیت کے ساتھ غزل کے افق پر نمودار ہوئے۔ وہ خود اپنی ذاتی زندگی میں، جس طرح کے شیریں و تلخ تجربات سے گزرے تھے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کا جس طرح تجربہ کیا تھا، اس سے ان کے دل و دماغ نے جو تاثرات قبول کیسے تھے، انہیں واقعات نے ان کی غزلوں کو اصلیت پسندی اور تا بٹا کی بخشی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اشعار
گناوگن کے میں کیوں اپنے دل کو چھوٹا کروں
سنا ہے تیرے کرم کا کوئی حساب نہیں
نہ دین کے ہوئے محسن ہم اور نہ دنیا کے
بتوں سے ہم نہ ملے اور ہمیں خدا نہ ملا
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چکے اب ترک دعا کرتے ہیں
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
علی سکندر جگر مراد آبادی کی غزلیں
علی سکندر جگر مراد آبادی (1890 – 1960 ) اردو شاعری کے چمکتے ستاروں میں شمار ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی شاعری ان کی رنگارنگ شخصیت ، رنگ تظلال اور نغمہ و ترم کی آمیزش کا نتیجہ ہے جس نے انھیں اپنے زمانے بے حد مقبول اور ہر دلعزیز شاعر بنادیا تھا۔ جگر کو شاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا کیوں کہ والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں بے حد مقبول شاعر تھے۔ جگر کو مرزا غالب اور دیگر شعرا کی طرح یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں اور برسوں گزر جانے کے بعد ہی زبان پر تاز درہتے ہیں۔ مثلا یہ عشق نہیں آساں بس اتنا ہی سمجھ لیجے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے جگر مراد آبادی نے داغ اور تسلیم کی شاگردی التیار کی ، اس لیے ان کے کلام میں اساتذہ کرام کا پورا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے جگر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نغزل کی زوال آمادہ روایت سے بہت جلد انحراف کیا اور اپنی غزلوں میں نفسیات عشق اور کیفیات مشق کا نہ صرف ترجمان بنا کر اپنا انفرادی رنگ پیدا کیا بلکہ اردو غزل کا مزاج بھی بدلا ۔ انھوں نے غزل کے لیے جذبات اور رندانہ کیفیت وستی سے ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا ۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ جگر کی عشقیہ غز لیں ابتدال اور عامیانہ روش سے بالکل پاک ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:
اشعار
مدت ہوئی اک حادثہ مشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا
جس دل کو تم نے دیکھ لیا دل بنا دیا
اصغر گونڈوی کی غزلیں
اصغر گونڈوی (1884 – 1936 ) بھی اس عہد کے اہم غزل گو شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں حسرت کی سادگی پسندانہ شیرینی ، فانی کی بالغ نظری، لطافت اور موسیقیت اور تصوف کی چاشنی نظر آتی ہے۔ ان کا کلام پڑھنے والا فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس میں خیال یا مضمون کی خوبی زیادہ ہے یا لطافت اور حسن بیان کی ۔ ان کے یہاں شاعری کا حاصل یہی ہے کہ پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو عرفانی نغموں سے بھر دیا جائے اور اس کی روح کو سرشار کیا جائے ۔ ان کی شاعری میں ہوس کا کوئی شائب نہیں ، ہر جگہ حسن تخیل، حسن نظر اور حسن ادا کی جلوہ نمائی ہے۔ جوش اور سرمستی اصغر کے تغزل کی جان ہے۔ عشقیہ اشعار میں دو تہذیب کا دامن نہیں چھوڑتے اور معمولی خیال کو بھی دلکش بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کے کلام میں شدت جذبات کے باوجود ایک طرح کا ٹھہراؤ اور ضبط ہے۔ اردو غزل میں اصغر نشاطیہ شاعری کی بہترین مثال ہیں۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:
اشعار
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
یوں مسکرائے جان کی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے
جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے
اے شعبدہ پرداز یہ کیا طرز نظر ہے
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے وابستہ شعرا نے اصلاح معاشرہ کے حوالے سے بہترین شاعری کی ۔ اسی عہد میں بہت سے شعرا ایسے بھی تھے جن کا تعلق سرسید تحریک سے نہیں تھا لیکن غزلوں کے حوالے سے انھوں نے عمدہ مثالیں قائم کیں۔ مذکورہ شعرا کے علاوہ بہت سے ایسے غزل گو شعرا ہیں جنھوں نے اردو غزل کے مزاج کو تبدیل کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ ایسے شعرا میں اثر لکھنوی، حفیظ جالندھری، سیماب اکبر آبادی ، آرزو لکھنوی ، عزیز لکھنوی ، جلیل مانک پوری اور صفی لکھنوی کے نام نمایاں ہیں۔