علم کلام : آغاز و ارتقاء

فہرست

علم کلام : آغاز و ارتقاء

علم کلام کا آغاز کب ہوا اور کب اس نے مسلمانوں کے اندر رواج پانا شروع کیا اس سلسلے میں کوئی بھی بات قطعی اور یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ البتہ یہ بات مسلم ہے کہ پہلی صدی ہجری کے نصف آخر میں جبر و اختیار، قضا و قدر اور عدل جیسے کچھ کلامی مسائل مسلمانوں کے درمیان بحث و گفتگو کا موضوع بن چکے تھے۔ اور اس طرح کی بحثوں کی شاید سب سے پہلی درس گاہ حضرت خواجہ حسن بصری ( وفات 110ھ) کی علمی مجالس تھیں۔ پہلی صدی ہجری کے نصف دوم کے دوران ہی معبد جہنی اور غیلان دمشقی جیسی شخصیتیں مسلمانوں کے درمیان گزری ہیں جنہوں نے انسان کی آزادی و اختیار کی شدت سے حمایت کی۔ اسی طرح ان کے مقابلے میں کچھ لوگوں نے عقید ہ جبر (انسان مجبور محض ہے) کی وکالت کی۔ اختلافات کا یہی سلسلہ آگے چل کر الہیات، طبیعیات، اجتماعیات اور انسان و معاد سے مربوط دیگر مسائل تک پہنچ گیا۔

کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے خلیفہ مہدی (مشہور عباسی حکمراں ہارون رشید کا باپ ) نے علماء اسلام کو بلا کر یہ حکم دیا کہ مختلف حلقوں کی جانب سے مذہب اسلام اور اس کے عقائد کے بارے میں جو شکوک و شبہات وارد کیے جاتے ہیں ان کے جواب میں کتابیں لکھی لکھ جائیں۔ البتہ اس وقت تک اس علم کا نام نہ تو علم کلام پڑا تھا نہ ہی اس نے باضابطہ ایک فن کی شکل اختیار کی تھی۔ زیادہ صحیح روایات کے مطابق عباسی خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں معتزلہ کے گروہ نے اس علم ( علم کلام) کی فلسفیانہ بنیادوں پر تدوین کی اور ان ہی لوگوں نے اس کا نام علم کلام رکھا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ گو علم کلام کی کچھ ابتدائی چیزیں پہلے سے مسلم معاشرہ میں موجود تھیں لیکن علم کلام کا مستقل ایک فن کی حیثیت سے نشو و نمادوسری اور تیسری صدی ہجری کے دوران اس وقت ہوا جب کہ مختلف تاریخی، سیاسی اور اجتماعی اسباب کے تحت اعتقادی مسائل پر خالص علمی و عقلی انداز میں بحث و مباحثے کا آغاز ہوا، اور اس موضوع پر کثرت سے کتا بیں اور رسالے لکھے گئے۔

تاہم بعض علماء کے نزدیک علم کلام کی داغ بیل عہد عباسی سے بہت پہلے عہد رسالت مآب میں پڑ چکی تھی۔ اور اسلامی اصولوں اور عقائد کے بارے میں استدلالی بحث و گفتگو کا آغاز خود قرآن مجید سے ہوا۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر علم کلام کو سادہ طور پر مخا طب کی ذہنی سطح کے مطابق اثبات عقیدہ کے معنی میں لیا جائے تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ علم کلام کا آغاز قرآن مجید کے نزول کے ساتھ ہی حضور ق ر نبی پاک کے زمانے میں ہو گیا تھا۔ کیونکہ قرآن مجید نے جن بنیادی عقائد کی طرف دعوت دی۔ مثلاً خدا کا وجود ، وحدانیت ، رسالت، حیات بعد الموت وغیرہ ( وہ سب علم کلام کے مباحث کا حصہ ہیں)، ایک طرف ان کے حق میں انسانی فطرت، مظاہر کا ئنات اور تاریخی واقعات سے نہایت واضح اور معقول دلائل فراہم کیے۔ اور دوسری طرف ان کے خلاف مشرکین نے جو اعتراضات کیسے ان کو بھی رد کیا۔ ساتھ ہی قرآن مجید میں رسول اللہ اور آپ کے اصحاب کو حکم دیا گیا کہ وہ غیر مسلم اقوام کے ساتھ احسن طریقے پر بحث و مباحثہ کریں۔ (سورہ نمل (120)۔ اس نقطہ نظر کے مطابق علم کلام کو یہ نام خواہ کسی بھی زمانے میں دیا گیا ہو اس کی اساسیات قرآن مجید میں پہلے سے موجود تھیں اور ان سے کام بھی لیا جاتا تھا۔

بعد کے ادوار میں جب علوم کی باقاعدہ تدوین کا کام شروع ہوا تو اعتقادی امور میں قرآن مجید کے دلائل ، رسول اللہ کے ارشادات صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال کو بھی جمع کیا گیا۔ انہیں چیزوں کے ساتھ جب عباسی دور میں یونانی فلسفہ و منطق اور دوسری قوموں مثلاً قبطی ، ایرانی اور ہندوستانی کے الہیاتی نظریات بھی ان میں شامل ہو گئے تو وہ مخصوص فن وجود میں آیا جو علم کلام کے نام سے مشہور ہوا۔ عباسی دور سے پہلے عقائد کے علم کو ”فقہ اکبر“ کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس کے مقابلے میں اسلامی شریعت کے احکام و مسائل کے علم کو فقہ اصغر کہا جاتا تھا۔ البتہ اس علم کو علم کلام کے نام سے شہرت عباسی دور میں حاصل ہوئی ۔

 اس طرح جب علم کلام کی درجہ بندی عمل میں آئی تو مذکورہ نقطہ نظر کے حامل علماء نے علم کلام کے ارتقائی مراحل کو چار بڑے ادوار میں تقسیم کیا اور اس کا آغاز عہد رسالت مآب کو صحابہ کرام سے کیا۔ دوسرے نقطہ نظر کے حاملین اسے تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ اور پہلے دور کو اس میں شامل نہیں کرتے۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یہ بھی پڑھیں