علم اسماء الرجال یا علم الاسناد کی اہمیت اور محدثین کا اس سے خصوصی شغف

اس کی اہمیت خود اس کی تعریف اور اس کی غرض وغایت سے ظاہر ہے کہ یہ فن ہمیں بتلاتا ہے کہ کون سا راوی کیسا ہے، اس کی دینی و مذہبی حالت کیسی ہے، فہم و فراست اور قوت حفظ کا کیا حال ہے، اہل سنت والجماعت کے صاف و شفاف مشرب سے ہٹ کر کسی اور طریق سے تو اپنی پیاس نہیں بجھاتا کسی غیر مذہب کا داعی تو نہیں۔

علم اسماء الرجال یا علم الاسناد کی اہمیت اور محدثین کا اس سے خصوصی شغف
علم اسماء الرجال یا علم الاسناد کی اہمیت اور محدثین کا اس سے خصوصی شغف

ظاہر بات ہے کہ ان باتوں کا جاننا خود مقصود تو نہیں بلکہ مقصود اور واجب تو حدیث کا علم ہے مگر چوں کہ اس پر حدیث کے ثبوت و عدم ثبوت اور صحت وسقم کا علم موقوف ہے ۔ اس ليے “مقدمة الواجب واجبة“ کے قانون کے مطابق علم اسماء الرجال کو بھی واجب اور غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دینا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ محدثین کرام نے اس علم پر خاص توجہ دی اور اس کو اپنی فکروں کا محور اور سرگرمیوں کے لیے مجال و میدان بنایا بلکہ عبد اللہ ابن المبارک نے تو اس علم ( علم الاسناد یا علم اسماء رجال) کے سیکھنے کو دین قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں:

الاسناد من الدين ولولا الاسناد لقال من شاء ماشاء”.

یعنی روایات کی سند دین کا ہی ایک حصہ ہے اگر یہ سندیں نہ ہوتیں تو جس کے منہ میں جو آتا وہ بک دیتا ، سفیان بن عیینہ کا بیان ہے ایک محدث نے ایک دن حدیثیں بیان کرنی شروع کیں تو میں نے کہا کہ حضرت بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھنا چاہتے ہو۔ (تدریب: ۱/ ۳۶)

سفیان ثوری کا مقولہ مشہور ہے: “الاسناد سلاح المومن (یعنی سند مومن کا ہتھیار ہے)۔

امام اوزاعی نے ارشاد فرمایا: “ما ذهاب العلم الاذهاب الاسناد (یعنی علم حدیث کا زوال سند کے زوال سے ہی ہو گا ) ۔

علامه ابن سیرین فرماتے ہیں: ” ان هذا العلم دين فانظروا عمن تاخذون دینکم (یعنی دین کا علم بھی دین ہے اس لیے غور کر لیا کرو کہ اپنا دین اس سے حاصل کرتے ہو)۔

محدثین کرام نہ صرف مطلق سند بلکہ سند عالی کی ہمیشہ تلاش میں رہتے تھے، امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ سند عالی کی جستجو اسلاف کی سنت ہے، اس لیے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی کے تلامذہ صرف اس غرض سے کوفہ سے مدینہ سفر کر کے جایا کرتے تھے کہ وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے احادیث حاصل کریں گے۔

بخاری شریف میں ہے کہ اسی مقصد کے تحت حضرت جابر بن عبد اللہ نے صرف ایک حدیث کے لیے مدینہ سے شام کا سفر کیا، یحییٰ بن معین کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو کسی نے سوال کیا ” ماذا تشتهی ؟ تو جواب میں ارشادفرمایا: ” بیت خال و سند عال“۔

تحقیق رجال اور علم اسانید کی اسی اہمیت کی بنا پر محدثین نے ہمیشہ اس پر غیر معمولی توجہ دی ہے اور اس کے لیے بڑی بڑی مشقتیں اٹھائی ہیں، جس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔

مشہور محدث شعبہ بن الحجاج (م۱۶۰ ھ ) نے ابو اسحق سے ایک حدیث سنی ” من توضأ فاحسن الوضوء ثم دخل المسجد فصلى ركعتين واستغفر الله غفر الله له” حدیث سن کر آپ نے ابواسحاق سے پوچھا کہ تم سے کس نے یہ حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا عبد اللہ بن عطا عن عقبہ، حضرت شعبہ نے پھر سوال کیا کہ کیا عبد اللہ بن عطا نے عقبہ سے سنا ہے۔

اس جرح وقدح اور کرید کرنے پر ابو اسحاق بگڑ اٹھے، اس وقت مجلس میں ایک اور محدث مسعر بن کدام بھی موجود تھے ، انہوں نے کہا آپ نے شیخ کو ناراض کر دیا، مسعر نے بتایا کہ عبد الله بن عطا مکہ میں ہے، شعبہ نے اس حدیث کی تحقیق کے لیے مکہ کا سفر کیا، شعبہ کا بیان ہے کہ میرا ارادہ حج کا نہیں تھا، میرا مقصد سفر صرف حدیث کی تحقیق کرنا تھا، میں نے عبد الله بن عطا سے مل کر پوچھا کہ یہ حدیث تم سے کس نے بیان کی؟ اس نے کہا کہ سعد بن ابراہیم نے حضرت مالک بن انس سے معلوم ہوا کہ وہ مدینہ میں رہتے ہیں، یہ سن کر میں نے مکہ سے مدینہ کا سفر کیا اور سعد سے ملاقات کر کے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مجھ سے زیاد بن مخراق نے بیان کیا ہے میں نے کہا کہ بڑی پریشان کن بات ہے، زیاد بن مخراق کوفہ کا رہنے والا ہے پھر مدینہ میں رہنے لگا تھا مگر آج کل وہ بصرہ میں ہے، اب میں نے بصرہ کا رخ کیا اور زیاد بن مخراق سے مل کر اس سے اس حدیث کے راوی کے متعلق پوچھا کہ تم سے کسی نے اس حدیث کو بیان کیا تو اس نے کہا کہ وہ آپ کے کام کا نہیں ہے میں نے پھر کہا نام بتاؤ ؟ اس نے دوبارہ کہا کہ آپ اس کو قبول نہیں کریں گے، میں نے تیسری بار کہا بتاؤ تو سہی ، تب اس نے کہا: “حدثني شهر بن حوشب عن ابي ريحانة عن عقبة” جوں ہی زیاد بن مخراق نے شہر بن حوشب کا نام لیا تو میں نے کہا ” ذمر على هذا الحديث” اس حدیث نے تو مجھے مار ہی ڈالا اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو مجھے اتنی محبوب ہوتی کہ میں اپنی آل و اولاد، مال و دولت سب کچھ قربان کر دیتا۔

اور علامہ ابن المدینی تو فرماتے ہیں: “الفقه في معاني الحديث نصف العلم و معرفة الرجال نصف العلم” معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت بھی نصف علم ہے، یہ فن ایسا سد سکندری ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی باطل کبھی بھی حق کے ساتھ خلط ملط ہو ہی نہیں سکتا ہے، اور نہ ہی حق کی کسی کڑی کو کوئی کم کر سکتا ہے، اور نہ غیر حق کو حق بتا سکتا ہے، بنی اسرائیل میں علم نہیں تھا، اور انہوں نے مذہب مذہیات کی خبر دینے والے کی صداقت و عدالت اور اس کی دروغ گوئی وافتراء پردازی کی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور نہ ہی ان کے پاس کوئی معیار تھا اسی وجہ سے وہ کسی بات کے رد و قبول میں افراط و تفریط کا شکار ہوتے چلے گئے۔ جب وہ رد کرنے پر آئے تو کوہ طور پر کلام باری بلا واسطہ سن کر بھی سو طرح کے شبہات نکالنے لگے، اور جب وہ قبول کرنے پر آئے تو اندھا دھند اپنے احبار ورہبان کی ہربات پر سر دھننے لگے اور اس کو دین و شریعت اور حکم الہی تصور کرنے لگے۔ مگر اسلام نے اس افراط و تفریط کے غیر متوازن نظریہ کی بیخ کنی کی اور ایک معتدل قانون تحقیق اور آئین تنقید عطا کیا، تا کہ نہ یہ ہو کہ ہر کان میں پڑنے والی بات کو صحیح سمجھ لیا جاوے، اور نہ یہ ہو کہ قطعیات و حتمیات میں بھی کیڑے نکالے جائیں۔

آثار الحديث : ٤٠٠ بحوالة مقدمة تذهيب : ٤) 

گروہ ایک جویا تھا علم نبی کا

لگایا پتہ اس نے ہر مفتری کا 

نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا 

کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا 

کئے جرح و تعدیل کے وضع قانوں 

نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare