علم اسماء الرجال اس امت کا امتیازی فن

مسلمانوں نے اپنے دین و دینیات اور اسلام و اسلامیات تک رسائی اور اس کے بقاء و تحفظ کے لیے یہ ایک ایسا نرالا اور نہایت ہی اہم فن ایجاد کیا ہے، جو صرف اور صرف مسلمانوں ہی میں پایا جاتا ہے۔

علم اسماء الرجال اس امت کا امتیازی فن
علم اسماء الرجال اس امت کا امتیازی فن

مسلمانوں کے علاوہ کوئی قوم، ماضی میں نہ حال میں اب تک اس فن کو دریافت نہیں کر سکی ، دوسرے مذاہب کو تو چھوڑیئے عالم ادیان کے دو بڑے مذہب یہودیت و عیسائیت، ان مذاہب کے پیروکار و پیشوایان بھی اپنی نسبت خشت اول سے مربوط نہیں کر سکتے نہ ہی اپنی ان مذہبی کتابوں کی محفوظیت اور بانیان مذاہب سے ثبوت پر کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کے پاس ناقلین مذہب کی کڑیاں محفوظ و مربوط نہیں ہیں۔

فن اسماء رجال سے متعلق ایک دشمن اسلام کا تاثر

چونکہ مذہب اسلام میں اس بات پر زور دی گئی ہے کہ دین کی کوئی بھی بات کوئی بھی شخص پیش کریں اس کی تمام اسناد کو دیکھا جائے کہ راوی کیسا ہے ؟ کس حیثیت کا ہے؟ اس کی روایت مقبول ہونے کے تمام شرائط و ضوابط موجود ہیں یا نہیں؟ اسی لیے دشمنان اسلام نے اسلام کی اس امتیازی خوبی کا اعتراف کیا ہے، ایک مشهور دشمن اسلام ڈاکٹراسپر نگر نے لکھا ہے  جو ابن حجر کی “الاصابة” کے مقدمہ میں مذکور کوئی قوم نہ دنیا میں ایسی گذری ہے نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال جیسا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصیتوں کا حال معلوم کیا جاسکتا ہے۔

اور یہ علم اسماء الرجال دراصل علم الاسناد ہے اور علم الاسناد کے متعلق علامہ ابن حزم فرماتے ہیں ثقہ کا ثقہ سے بلا انقطاع ( اتصال سند کے ساتھ ) حدیث نبوی کو نقل کرنا یہ وہ نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خاص اس امت کو نوازا ہے ۔ (تدریب : ۱۸۳)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare