عرب و ہند کے درمیان کی تجارتی اشیاء اور مقامات
عرب و ہند کے درمیان تعلقات میں تجارتی تعلق سب سے زیادہ اہم اور قدیم ہے۔ عربوں کی نگاہ میں ہندوستان سے ہونے والی تجارت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر نے جب ایک عرب سیاح سے ہندوستان کے بارے میں اس کی رائے معلوم کی تو اس نے بڑے ہی بلیغ انداز میں صرف تین فقروں میں یہ جواب دیا: بحرها در، وجبلھا یا قوت و شجرها عطر ( اس کے دریا موتی ہیں، اس کے پہاڑ یا قوت ہیں اور اس کے درخت عطر ہیں)۔
یہ بات جیسے زمانہ قدیم میں درست تھی اسی طرح موجودہ زمانے میں بھی بالکل صحیح ہے ، آج بھی عرب و ہند کے درمیان تجارتی تعلقات بہت گہرے اور وسیع ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عرب و ہند کے درمیان کی تجارت یک طرفہ نہیں تھی دونوں علاقوں سے مختلف اشیاء کی درآمد اور برآمد کا کام ہوتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان کی برآمدات زیادہ اور در آمدات نسبتا کم تھیں۔
سید سلیمان ندوی اور قاضی اطہر مبارک پوری دونوں مصنفین نے مختلف حوالوں سے ان اشیاء کا تذکرہ کیا ہے جن کا دونوں علاقوں کے درمیان لین دین ہو تا تھا۔ یہاں پر انہیں کا خلاصہ بیان کیا جائے گا۔
ہندوستان سے برآمد کی جانے والی اشیاء اور ان کے مقامات
ہندوستان سے مختلف علاقوں کی متعدد طرح کی چیزیں عرب علاقوں کو برآمد کی جاتی تھیں ۔ یہ ہندوستانی بر آمدات ایک طرف عرب کے مختلف علاقائی بازاروں میں فروخت ہوتی تھیں تو دوسری طرف بہت ساری چیزیں عرب سے باہر دوسرے ملکوں میں لے جاکر فروخت کی جاتی تھیں۔ قاضی اطہر مبارک پوری نے عرب جغرافیہ نویس ابن خرداذ بہ کی کتاب المسالک و الممالک کے حوالے سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ معمولی حذف واضافے کے ساتھ کچھ اس طرح ہے:
ہندوستان سے ہر قسم کا عود ، صندل، کافور، ماخور ، جوزبوا، قرنفل، قاقلہ ، کبایہ نار جیل، نباتی کپڑے، روئی کے مخملی کپڑے اور ہاتھی دیار عرب میں جاتے تھے۔
سراندیپ سے ہر قسم اور ہر رنگ کے یاقوت، موتی ، بلور ، سنبادج، ملی اور سنجان (سندان ) سے فلفل ، کلہ سے رصاص قلمی، جنوب سے بقم اور داذی ( تازی) اور سندھ سے قسط ، بانس اور بید کی لکڑیاں عرب بھیجی جاتی تھیں۔ اس کے بعد علاقہ وار بر آمد کی جانے والی اشیاء کا ذکر ہے۔
- سندھ: سندھ کی برآمدات میں قسط، بانس اور بید کی لکڑیاں ، سندھی کپڑے، سندھی مرغی، پالہ اونٹ
- سندان : ساگوان اور بانس کی پیداوار بہت ہے، فلفل
- کم کم ( موجودو کو کن): ساگوان بہت ہوتا ہے
- جزیره رامی: گینڈے پائے جاتے ہیں اور بید کی پیداوار ہوتی ہے، یہاں کے باشندے سمندر میں تیر کر اور کشتیوں پر عرب تاجروں کے جہاز تک آتے ہیں اور لوہے کے بدلے عنبر فروخت کرتے ہیں، یہاں بید بقم اور سم ساعد پائے جاتے ہیں، اس تریاق کو مسافروں نے سانپ کے زہر میں آزمایا ہے، یہاں گینڈا بھی ہوتا ہے۔
- کله: بید کے جنگل ہیں، رصاص قلمی کی کان ہے۔
- بابتن: چاول کی پیداوار ہوتی ہے۔
- سنجلی: چاول کی پیداوار ہوتی ہے
- کیشکان: چاول کی پیداوار ہوتی ہے
- کنجہ اور لواء: چاول اور گیہوں دونوں پیدا ہوتے ہیں
- سمندر: چاول زیادہ ہوتا ہے
- بالوس: چاول زیادہ ہوتا ہے
- قمار: چاول زیادہ ہوتا ہے، عود بھی پیدا ہوتا ہے۔
- شلاہٹ ( موجود سلہٹ) : قرانکل یعنی لونگ سو اہوتی ہے ، صندل اور سنیل ہوتا ہے۔
- کامرون ( قامرون) : یہاں سے عود سمندر کے مقام پر لائی جاتی ہے، یہاں گینڈا اور سونا بہت زیادہ ہے۔
- سراندیپ: یہاں کے پہاڑوں پر عود کی پیداوار ہے، مشک اور زیادہ ہوتے ہیں، عطر اور قسم قسم کی خوشبوئیں ہوتی ہیں، یہاں کے پہاڑوں پر اور ان کے اطراف میں ہر قسم اور ہر رنگ کے یا قوت پائے جاتے ہیں ، اور اس کی وادیوں میں املاس اور پہاڑوں میں عود ، فلفل ، عطر ، خوشبو، مشک زیاد کے جانور ، نار جیل اور متبادج کی کثرت ہے۔ یہاں کے دریاؤں میں بلور ہے اور اطراف کے سمندر سے موتی نکلتے ہیں۔
- رہمی (بنگال) : روئی کا مخملی کپڑا اور عود ہندی پیدا ہوتا ہے۔
- جزیرہ تیومہ : یہاں خود پیدا ہوتا ہے، کافور کی بھی پیداوار ہوتی ہے۔
- صنف: یہاں عود پیدا ہوتا ہے، قمار کی عود سے بہتر صنف کی عود ہوتی ہے۔
- زابج: یہاں کے پہاڑوں میں کافور ہوتا ہے، پہاڑوں میں سانپ اور اژدہے پائے جاتے ہیں۔
- جزیرہ بالوں : یہاں کا کافور بہت ہی عممدہ ہوتا ہے،۔
- جابہ: عطر کا دیس ہے،۔
- جزیرہ نکیالوس : یہاں کی دولت لوہا ہے۔
- نشین: ہاتھی، چوپائے، بھینسیں، اور دیگر اشیاء پائی جاتی ہیں۔
- ابیٹہ : یہاں ہاتھی پایا جاتا ہے۔
مذکورہ اشیا کے علاوہ بھی بہت سی تجارتی چیز میں ہندوستان سے عرب جاتی تھیں مثلا ہندی تلواریں، سندھ سے سندھی کپڑے،ط سندھی مرغی، پالہ اونٹ (فالج ) جس کی نسل سے عرب کا مشہور سختی اونٹ ہوتا ہے۔ مندل سے عود ہندی۔ بروص (بھڑوچ) سے بھڑوچی نیزے ، کھنبائت اور سند ان سے نعال کنبا یتیہ یعنی کھمبائت کے جوتے اور نار جیل، تھانہ سے عمدہ کپڑے اور اسی طرح مختلف مقامات سے مختلف چیزیں عرب جایا کرتی تھیں۔
ساحلی عرب میں ہندوستانی مال ( اشیاء) کی منڈیاں
سید سلیمان ندوی اور قاضی اطہر مبارک پوری نے اپنی کتابوں میں عرب علاقوں میں قائم ایسی متعدد منڈیوں اور بازاروں کا ذکر کیاہے جہاں کثرت سے ہندوستانی بر آمدات پہنچتی تھیں، یہاں ان کے بڑے بڑے گو دام تھے۔ انہیں گوداموں سے یہ اشیاء عرب کے اندرونی علاقوں اور بیرون عرب دور دراز تک کے علاقوں تک لے جائی جاتی تھیں۔ عرب کی ساحلی منڈیوں ( بندر گاہوں) میں اہلہ ، صحار ، عدن اور جار کی بندر گاہوں کو خاص شہرت حاصل تھی، ان بندر گاہوں پر ہندوستان اور چین انہیں مقامات سے انہیں دیگر علاقوں تک بہ غرض تجارت بھیجایا لے جایا جاتا تھا۔
ابلہ : خلیج فارس کے کنارے عربوں کا یہ قدیم اور سب سے بڑا بندر گاہ تھا، یہ موجودہ بصرہ ( جسے عراق کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے بسانے کا حکم دیا تھا) کے قریب واقع تھا اور حضرت عمر کے دور خلافت میں ہی مسلمانوں نے اسے بھی فتح کر لیا تھا۔ ہندوستانی تجارت کی غرض سے یہاں اس کثرت سے آتے جاتے رہتے تھے کہ اہل عرب اسے ہندوستان کا ہی ایک محطہ خیال کرتے تھے۔ عربوں میں یہ بندر گاہ ارض الہند اور فرج الہند والسند کے نام (لقب) سے شہرت رکھتا تھا۔ بصرہ کی بندر گاہ بن جانے کے باوجود اہلہ کی تجارتی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ بعد کے زمانے میں بھی ایک تجارتی شہر کے طور پر ہندوستان آمد و رفت کا یہ ایک بڑا مرکز رہا۔ 256 ہجری میں زندگیوں کی لڑائی میں یہ بندر گاہ تباہ ہو گئی۔
قفار اور صحار : حضر موت (یمن) کے مشرق میں خلیج فارس کے ساحل پر نظار اور صحار نامی قدیم ساحلی منڈیاں تھیں۔ خاص طور پر ظفار زمانہ قدیم سے ہندوستانی گرم مسالوں، خوشبوؤں اور عبادت گاہوں میں استعمال ہونے والے مختلف قسم کے بخور کی اہم منڈی تھی۔ ایک طویل عرصے تک اسے ہندوستانی بحری تجارت کے بڑے مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ اسی طرح عثمان کے ساحل پر صحار اور دبا ( دبئی ) کے بازاروں کو بھی خاص اہمیت حاصل تھی۔ ان بازاروں میں ہندوستانی و چینی ہی نہیں بلکہ مشرق و مغرب کے دیگر علاقوں کے تاجر بھی آتے تھے اور بڑے پیمانے پر مختلف علاقوں کی اشیاء کی یہاں خرید و فروخت ہوتی تھی۔