عرب و ہند کے تجارتی تعلقات
عرب علاقوں کے باشندوں اور ہندوستان کے لوگوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت زمانہ قدیم سے گوناں گوں رہی ہے۔ البتہ ان تمام تعلقات میں مرکزی حیثیت ہمیشہ سے تجارتی تعلقات کو حاصل رہی ہے۔
عرب کے جغرافیے پر سرسری نظر دوڑانے سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ علاقہ زراعت کے لیے کافی سہولتوں سے محروم ہے۔ خطے کے اطراف میں تین طرف سمندر ہیں (اس لیے اسے جزیرۃ العرب کہا جاتا ہے)، زمین زیادہ تر ریتیلی ( ریگستان ) ہے ، چھوٹے چھوٹے نخلستانوں اور کچھ زرخیز علاقوں سے خطے کی آبادی کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے عرب ہمیشہ سے تجارت کی طرف مائل رہے ہیں، عرب بنیادی طور پر جفاکش اور بہادر ہوتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی ان کے آس پاس کے علاقے بیشتر زرخیز اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ ان کے ایک طرف عراق کا زر خیز ملک ہے اور اسی سے ملحق ایران تو دوسری طرف اپنی سرسبزی و شادانی میں یکتائے روزگار شام و فلسطین ، تیسری طرف مصر اور افریقہ کے سرسبز علاقے ہیں تو اس کے بالکل سامنے اپنی تمام تر ہریالی و خوش حالی کے ساتھ ہندوستان جنت نشان۔ ان تمام علاقوں سے عربوں کے براہ راست تعلقات رہے ہیں، وہ ان علاقوں میں تجارت کی غرض سے آتے جاتے رہے ہیں اور یہاں کے لوگوں اور ان کے مزاج وعادات سے واقفیت بھی رکھتے ہیں۔
پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ عرب کے علاقے میں کافی سرسبزی و شادابی نہ تھی اس لیے عربوں کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے کے لیے دیگر ذرائع بھی استعمال کرنے پڑتے تھے اور بیرونی تجارت ان میں بہت ہی اہم ذریعہ تھا۔ عرب فطری طور پر تجارت کی طرف مائل تھے اور ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کے چاروں طرف کے علاقے تجارت کے لیے موزوں تھے۔ ہند عربوں کے زمانہ قدیم سے تجارتی تعلقات کا ذکر ہو چکا ہے۔ عربوں کی یہ تجارت بحر ہند ، خلیج فارس اور بحر احمر کے کناروں پر آباد بحرین، عمان، حضر موت ، یمن، مجاز و غیرہ کے ساحلی مقامات سے شروع ہوتی تھی اور ہندوستان میں سندھ کے ساحلی علاقوں سے لے کر مالا بار اور خلیج بنگال تک کے بندرگاہوں تک پہنچتی تھی۔ ان مقامات سے بلکہ چین تک سے عرب تاجر مختلف طرح کی اشیاء کی تجارت کرتے تھے۔ یہ تجارت دو طرفہ ہوتی تھی۔ عرب تاجر ہندوستانی اشیاء لے کر بحری راستے سے یمن پہنچتے تھے، یمن سے ان کا بہت بڑا حصہ خشکی کے راستے بحر احمر کے کنارے کنارے حجاز سے ہوتا ہوا شام اور مصر تک پہنچتا تھا اور پھر وہاں سے بحر روم کے ذریعہ یہ تجارت یورپ تک وسیع ہو جاتی تھی۔
عرب و ہند کے درمیان یہ بحری تجارتی تعلقات اس وقت تک استوار رہے جب تک کہ پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں پرتگیزیوں نے جنوبی افریقہ کے راستے یورپ سے ہندوستان پہنچنے کا متبادل بحری راستہ نہیں دریافت کر لیا۔ بعد میں ڈچ ( ولندیزی) انگریز اور فرانسیسی بھی ان بحری مہموں کا حصہ بن گئے اور ان سب نے مل کر بہ زور طاقت عرب مسلمانوں کو بحری تجارت سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔ یورپ کے کئی ممالک جو اپنی نئی ایجادات کے سبب اس وقت تک دنیا کی بڑی بحری طاقت بن چکے تھے ، ان سب نے مل کر ہندوستان کی وہ تجارت ، جس پر بڑی حد تک عربوں کی اجارہ داری قائم تھی، ان سے چھین لی۔ انہوں نے بظاہر تجارتی جہازوں کو فوجی بحری بیڑوں میں تبدیل کر لیا اور عرب تاجروں سے سمندر میں جنگ شروع کر دی۔ یورپ اور عرب و ہند کے درمیان ہونے والی ان جنگوں میں اہل یورپ کا پلڑا بھاری رہا جس کی بنیادی وجہ ان کے جدید بحری جہاز اور اسلحے تھے۔ عرب جہازراں اور ہندوستانی ساحلوں کی متعدد ہندو مسلم ریاستیں یورپی بحری طاقت کا مقابلہ نہ کر سکیں اور نتیجے میں ہندوستان سے لے کر سواحل شمالی افریقہ تک کی ( مشرقی افریقی سواحل کے ساتھ کی ) تمام تجارت جو کبھی عرب اور ہندوستانی تاجروں کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی وہ یورپی ممالک کے قبضے میں چلی گئی۔ حالاں کہ خلیج فارس کا تجارتی راستہ اس کے بعد بھی کافی عرصے تک عربوں کے ہاتھ میں رہا البتہ اس کے بھی اہم مقامات پر یورپی ملکوں کے مراکز قائم ہو گئے جو ان کے تجارتی مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔ یورپی ملکوں کی ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے اہم ساحلی مراکز پر قبضے جما لیے یہاں تک کہ ہندوستان سے لے کر شمالی افریقہ تک کے روایتی بحری تجارتی راستے پر بھی، جو بہر حال قریب تر اور زیادہ محفوظ تھا، ان کا قبضہ مستحکم ہو گیا۔ اس مقصد کے پیش نظر انیسویں صدی کے نصف آخر میں بحر احمر اور بحر روم کو ملانے کے لیے اور یورپ کو بر اور راست ہندوستان سے بحری راستے کے ذریعے جوڑنے کے لیے نہر سویز کھو دی گئی اور اس طرح ہندوستان اور یورپ کے درمیان کا بحری تاریخی تجارتی راستہ اور بحری تجارت ایک طویل عرصے کے لیے یورپی جہاز رانوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔