عرب و ہند تعلقات کا آغاز وارتقا
ہندوستان اور جزیرہ نمائے عرب کے درمیان گو طویل مسافت ہے، البتہ دونوں بحیرہ عرب کے ساحلوں پر ایک دوسرے کے مقابل واقع ہیں، اس لیے ان کے درمیان پڑوس اور ہم سائیگی کا تعلق بھی ہمیشہ سے قائم ہے۔ عرب و ہند کے تعلقات میں سید سلیمان ندوی نے ایک بڑا ہی لطیف نکتہ بیان کیا ہے کہ : دریا کنارے کے ملک فطر تا تجارتی ہوتے ہیں۔ اس لیے شاید تجارت ہی سب سے پہلا رشتہ تھا جو عربوں اور ہندوستانیوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد بنا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عرب و ہند کے درمیان تعلقات کا آغاز تجارت سے ہوا جو آگے چل کر گوناں گوں تعلقات میں بدلتا گیا۔ یہاں یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ تاریخ عالم میں بحری تجارت شروع کرنے والی پہلی قوم عرب تھی۔ عربوں میں انہیں عاد ارم (کنعانی) کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ کسی زمانے میں بحرین کے ساحل سے اٹھ کر شام کے ساحل پر آباد ہو گئے تھے۔ قدیم زمانے سے ہی عرب کے یہ تاجر تجارتی مقاصد سے ہندوستان، مشرق بعید کے جزائر اور چین و جاپان تک بحری سفر کیا کرتے تھے اور ان ممالک کی پیداوار اور مصنوعات کو مصر و شام کے راستے سے یورپ کے بازاروں اور منڈیوں میں بغرض تجارت لے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح یورپی علاقوں کی مصنوعات اور پیداوار کو ہندوستان، چین، جاپان اور مشرق بعید کے جزیروں تک بھی یہی عرب لے جاتے تھے۔
تجارتی راستے کی تفصیل
سید سلیمان ندوی نے اس تجارتی راستے کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے :
عربوں کا راستہ یہ تھا کہ وہ مصر و شام کے شہروں سے چل کر خشکی بحر احمر کے کنارے کنارے حجاز کو طے کر کے یمن تک پہنچتے تھے اور وہاں سے بادبانی کشتیوں پر بیٹھ کر کچھ تو افریقہ اور حبشہ کو چلے جاتے تھے اور کچھ وہیں سے سمندر کے کنارے کنارے حضر موت ، عمان، بحرین اور عراق کے کناروں کو طے کر کے خلیج فارس کے ایرانی ساحلوں سے گزر کر یا تو بلوچستان کی بندرگاہ تیز میں اتر پڑتے تھے یا پھر آگے بڑھ کر سندھ کی بندرگاہ دیبل (کراچی) میں چلے آتے تھے اور پھر آگے بڑھ کر گجرات اور کاٹھیاواڑ کی بندر گاہ تھانہ (بمبئی موجودہ ممبئی) کھمبایت چلے جاتے تھے، پھر آگے بڑھتے تھے اور سمندر سمندر کالی کٹ اور راس کماری پہنچتے تھے اور پھر کبھی مدراس کے کسی کنارے پر ٹھہرتے تھے اور کبھی سراندیپ ، انڈمان ہو کر پھر سیدھے مدراس کی مختلف بندر گاہوں پر چکر لگاتے ہوئے خلیج بنگال میں داخل ہو جاتے تھے اور بنگال کی ایک دو بندر گاہوں کو دیکھتے ہوئے برہما (برما) اور سیام ( تھائی لینڈ ) ہو کر چین چلے جاتے تھے اور پھر اسی راستے سے لوٹ آتے تھے۔“
بحری راستے کے ساتھ ساتھ عرب و ہند کے تعلقات خشکی کے راستے سے بھی عہد قدیم سے قائم تھے البتہ ان تعلقات میں واسطہ ایران تھا۔ خاص طور پر ایرانیوں نے جب عرب بر قبضہ کیا تو سندھ و بلوچستان اور موجودہ ہندوستان کے ان کے مقبوضات اور زیر اثر علاقوں سے بہت سے ہندوستانیوں کو جا کر آباد ہونے اور اپنی بستیاں بسانے کا موقع ملا۔ ہندوستانیوں کی یہ بستیاں عراق سے لے کر یمن تک کے عرب علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہاں پر ہندوستانی اشیاء کی تجارت کرنے کے ساتھ جہازوں اور کشتیوں پر ملازمت بھی کرتے تھے۔ قاضی اطہر مبارک پوری کے مطابق عرب علاقوں میں آباد ہندوستانی زط ، اساورہ، سیابچہ ، احامرہ، مید ، بیا سرہ اور تکا کرہ و غیرہ ناموں سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے ناموں کی اس کثرت سے یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ عرب علاقوں میں موجود ہندوستانیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری سالوں ( 7 اور 8 ہجری) میں اسلام کی دعوت جب عام ہوئی تو عرب علاقوں میں موجود دوسرے مذہبی گروہوں کی طرح ہندوستانی بھی دعوت اسلام سے واقف ہوئے، ان میں سے کچھ نے اسلام قبول کر لیا اور کچھ صابیوں اور مجوسیوں کی طرح جزیہ دے کر اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔ بعد کے ادوار (عہد خلافت راشدہ، عہد بنو امیہ اور عہد بنو عباس) میں ان تعلقات میں مزید وسعت آئی، عرب علاقوں میں موجود ہندوستانی اقوام کے ساتھ صابیوں اور مجوسیوں جیسا معاملہ کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی سرزمین پر محمد بن قاسم کی فتح اور قیام حکومت سے پہلے بھی مختلف اوقات میں مسلمانوں کی متعدد چھوٹی بڑی حکومتیں بھی قائم ہوئیں ، ان کی تفصیل قاضی اطہر مبارک پوری کی کتابوں اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ، ‘ہندوستان میں عربوں کی حکومتیں ، اور ‘خلافت راشدہ اور ہندوستان میں دیکھی جاسکتی ہے۔