صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل بھی اندھا ہوتا ہے

فہرست

صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل بھی اندھا ہوتا ہے

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ، فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ  ( ۱۷، سوره حج، آیت (۴۶) 

کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان واقعات کو سن لیتے بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتی بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

تشریح : سلف سے منقول ہے کہ فرعون کے خدائی دعوے اور خدا کی پکڑ کے درمیان چالیس سال کا عرصہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھٹکارا نہیں ہوتا۔ 

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت وَكَذَلِكَ أَخُذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ پڑھی۔ پھر فرمایا کہ کئی ایک بستیوں والے ظالموں کو جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی ہم نے غارت کر دیا جن کے محلات کھنڈر بنے پڑے ہیں، اوندھے گرے ہوئے ہیں ان کی منزلیں ویران ہوگئیں ان کی آبادیاں اُجڑ گئیں ان کے کنویں خالی پڑے ہیں، جو کل تک آباد تھے آج خالی ہیں ان کے چونہ گچ محل جو دور سے سفید چمکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے جو بلند و بالا اور پختہ تھے وہ آج اُجڑے پڑے ہیں وہاں الو بول رہا ہے ان کی مضبوطی انہیں نہ بچا سکی ان کی خوبصورتی اور پائیداری بیکار ثابت ہوئی رب کے عذاب نے انہیں تہس نہس کر دیا جیسے فرمان الہی ہے: ﴿ أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمُوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةِ یعنی گوتم چونہ گچ پکے قلعوں میں محفوظ ہو لیکن موت وہاں بھی تمہیں چھوڑنے کی نہیں۔ کیا وہ خود زمین میں چلے پھرے نہیں؟ نہ ہی کبھی غور و فکر کیا کہ کچھ عبرت حاصل ہوتی۔

امام ابن ابی الدنيا رحمه الله، كتاب التفكر و الاعتبار میں روایت بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسیٰ ! لوہے کی نعلین پہن کر لوہے کی لکڑی لے کر زمین میں چل پھر کر آثار و عبرت کو دیکھ وہ ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ تیری لوہے کی جوتیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور لوہے کی لکڑی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے۔

بعض دانشمندوں کا قول ہے کہ وعظ کے ساتھ اپنے دل کو زندہ کر، اور غور وفکر کے ساتھ اسے نورانی کر، اور زہد اور دنیا سے بچنے کے ساتھ اسے مار دے اور یقین کے ساتھ اسے قومی کرلے، اور موت کے ذکر سے اسے ذلیل کر دے، اور فنا کے یقین سے اسے صبر دے، دنیا کی مصیبتیں اس کے سامنے رکھ کر اس کی آنکھیں کھول دے، زمانہ کی تنگی اسے دکھا کر اسے دہشت ناک بنا دے، دنوں کے الٹ پھیر سمجھا کر اسے بیدار کر دے، گزشتہ واقعات سے اسے عبرتناک بنا، اگلوں کے قصے سنا کر ہوشیار رکھ، ان کے شہروں میں اور ان کے سوانح میں غور وفکر کرنے کا عادی بنا، اور دیکھ کہ گنہگاروں کے ساتھ اس کا معاملہ کیسا کچھ ہوا، کس طرح وہ لوٹ پوٹ کر دیئے گئے۔ پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ، ان کی ہلاکت کے سچے فسانے سن کر عبرت حاصل کرو۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے برا اندھا پا دل کا ہے۔ 

گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہیں۔ دل کے اندھاپے کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیر و شر کی تمیز ہوتی ہے۔ ابو محمد ابن حیان اندلسی رحمہ اللہ نے جن کا انتقال سنہ ۵۱۷ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: 

اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پارہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور برے آپے سے بھی تو بے خبر ہے؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے! آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق حاصل نہ کیا جائے، یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند، گوجی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل ناخواستہ کوچ کرنا ہی پڑے گا کیا امیر ہو کیا غریب کیا شہری ہو کیا دیہاتی ۔ (تفسیر ابن کثیر ، جلد ۳، ۴۳۰، ۴۳۱)

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *