شیخ علی ہجویری

فہرست

شیخ علی ہجویری المتوفی 465 یا 500ھ

نام و نسب: آپ کا نام علی اور کنیت ابو الحسن تھی۔ سلسلہ نسب یہ ہے علی بن سید عثمان بن سید علی بن سید عبد الرحمن بن سید شاہ شجاع بن ابو الحسن علی بن سید حسن اصغر بن سید زید شہید بن سید نا حسن بن سید نا علی مرتضی۔

 چونکہ ہجویر اور جلاب ( جو غزنین کے دو گاؤں ہیں) کو شروع میں آپ کے قیام کا شرف ملا۔ لہذا آپ ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سال ولادت سنہ 400ھ بتایا جاتا ہے۔

 تعلیم:   علم کی تحصیل کی تفصیل کا پتہ نہیں چلتا لیکن اپنی مشہور تصنیف کشف المحجوب میں اپنے اساتذہ کے نام لکھے اور مختصراً ان کا حال بیان کیا ہے۔ نام ذیل میں درج ہیں:

  1. ابو العباس بن محمد الاشتقانی
  2. ابو جعفر محمد بن مصباح الصيدلانی
  3. ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری
  4. ابو القاسم بن علی بن عبد اللہ گرگانی
  5. ابو العباس احمد بن محمد القصاب
  6. ابو عبد الله محمد بن علی داستانی
  7. ابو سعید فضل الله بن محمد
  8. ابو احمد بن احمد بن حمد
  9. ابو احمد مظفر

صفائے باطن کی تربیت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی سے پائی جو تفسیر و حدیث کے ایک بڑے عالم تھے اور تصوف میں مذہب جنید (بغدادی) کے پابند ، ساٹھ (60) سال گمنامی کی حالت میں لوگوں سے دور رہ کر گزار دیے ۔ ظاہری رسوم کی پابندی کی شدت سے مخالفت کرتے، چنانچہ ان کا اپنالباس ظاہری متصوفین جیسا نہ تھا۔ وہ شیخ ابوالحسن علی حصری کے مرید تھے جو ابو بکر شبلی کے واسطے سے جنید بغدادی سے وابستہ تھے۔

سیاحت:  تطہیر قلب و روح کے لیے ابو الحسن علی ہجویری نے کثرت سے سفر کیے ۔ شام ، عراق ، فارس ، قہستان ، آذر بائجان ، طبرستان، خوزستان، کرمان ، خراسان، ترکستان اور ماوراء النہر کے علاوہ دیگر مقامات کا سفر کیا۔ جہاں گئے وہاں کے علماء اور صوفیہ سے فیض حاصل کیا۔ خاص خراسان میں تقریباً تین سو (300) مشائخ سے ملے۔ ایک گاؤں میں پہنچے تو ایک خانقاہ میں متصوفین کی جماعت نظر آئی، ان کو علی ہجویری بہت حقیر معلوم ہوئے ، وہ خود اونچے کوٹھے پر ٹھہرے اور علی ہجویری کو ٹھہرنے کے لیے نیچے ایک کو ٹھا دیا، کھانے کے وقت ہجویری کو سوکھی روٹی دی اور خود اچھا کھانا کھایا، کھانے کے بعد ہجویری پر خربوزے کے چھلکے پھیلتے اور طنزیہ فقرے کتے ۔ ہجویری لکھتے ہیں کہ وہ جتنا ز یادہ طنز کرتے ہجویری کا دل اتناہی خوش ہوتا۔ یہاں تک کہ ذلت اٹھاتے اٹھاتے دل کی عجیب کیفیت ہو گئی وہ کشف حاصل ہوا جو اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔ اس وقت ہجویری کو معلوم ہوا کہ مشائخ اپنے پاس جاہلوں کو کیوں جگہ دیتے ہیں۔ چالیس (40) سال مسلسل سفر میں رہے لیکن نماز باجماعت کبھی ترک نہ ہوئی ۔ ہر جمعہ کو کسی قصبہ میں قیام فرماتے تا کہ نماز جمعہ ناغہ نہ ہو۔ اپنے مرشد کی طرح صوفیہ کے ظاہری رسوم سے نفرت تھی ، ان کو معصیت دریا اور رسوم کے پابند صوفیہ کی صحبت کو مقام تہت قرار دیتے اور فرماتے کہ جب کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اس کو مقام تہمت میں کھڑا نہ ہونا چاہیے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ نے ایک نکاح فرمایا تھا لیکن جلد ہی تفریق ہو گئی پھر دوبارہ نکاح نہیں کیا۔ اور بعض نے لکھا ہے کہ کسی سے ایک سال تک ابتلاء عشق رہا، دین تباہ ہونے سے پیشتر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اس فتنہ سے ان کو بچالیا۔

سلطان مسعود غزنوی کے دور میں اپنے مرشد کی وفات کے بعد ان کے حکم کے مطابق لاہور تشریف لائے اور تا وقت اخیر یہیں مقیم رہے۔ مدعیان علم سے مذاکرے بھی ہوئے اور رشد و ہدایت اور تبلیغ دین میں مصروف بھی رہے۔ سال وفات عام طور پر 465 ھ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن پروفیسر علم الدین سالک کی تحقیق کے مطابق صحیح سنہ وفات 500 ھ ہے۔ غالباً اسی قیام لاہور کے دوران مرجع خلائق بنے۔

چنانچہ مسعود غزنوی کے جانشین ابراہیم غزنوی نے بنظر احترام آپ کا مزار تعمیر کرایا۔

تصانیف:

  1. منہاج الدین
  2. كتاب الفناء والبقاء
  3. اسرار الخرق والمؤنات
  4. البيان لاہل العيان
  5. بحر القلوب
  6. الرعايۃ لحقوق الله
  7. کشف المحجوب
  8. دیوان
  9. ایک کتاب ایمان پر جدا گانہ لکھی
  10. ایک رسالہ میں حسین ابن منصور حلاج کے کلام کی شرح کی

ان تصانیف میں صرف کشف المحجوب باقی رہ گئی۔ دوسری تصانیف میں منہاج الدین اور دیوان کا دولوگوں نے سرقہ کر لیا اور اپنے اپنے نام سے ان کو منسوب کر دیا۔ کشف المحجوب کے علاوہ آپ کی دیگر تصانیف کا پتہ نہیں چل سکا۔

علم : علی ہجویری کے نزدیک علم ہی کے ذریعہ ایک سالک مراتب و درجات کے حصول کے لائق ہوتا ہے اور یہ بھی اس وقت جب وہ اپنے علم پر عمل بھی کرتا ہو۔ علم کی دو قسمیں ہیں۔

  1. علم حق جو تمام موجودات و معدومات پر محیط ہے اور اس کی کوئی حدو انتہا نہیں
  2. علم خلق جو خلق کی صفت ہے حق تعالیٰ کا عطا کردہ اور محمد و دو متناہی

علم حق کے بالمقابل علم خلق بالکل ہیچ ہے۔ علم خلق کی بھی دو قسمیں ہیں۔

  1. اصولی: ظاہر میں کلمہ شہادت پڑھنا اور باطن میں معرفت کی تحقیق کرنا
  2. فروعی: ظاہر میں لوگوں کے ساتھ حسن معاملہ اور باطن میں نیت کا خالص رکھنا

فرماتے ہیں کہ ظاہر باطن کے بغیر نفاق ہے اور باطن ظاہر کے بغیر زندقہ گمراہی) ۔ ظاہر شریعت باطن شریعت (یعنی حقیقت) کے بغیر ناقصو نا مکمل ہے اور باطن شریعت کا دعویٰ ظاہر شریعت کی پابندی کے بغیر ہوئی وہوس۔ ہر شخص پر لازم ہے کہ احکام و معرفت کے حصول میں مشغول رہے۔

جو شخص علم کو دنیاوی عزت و جاہ کی غرض سے اختیار کرتا ہے در حقیقت وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں کیونکہ دنیاوی عزت و جاہ کی خواہش خود از قبیل جہالت ہے۔

 تصوف:  فرمایا: کلمہ تصوف باب تفعل سے ہے جس کا خاصہ یہ ہے کہ یہ تکلف فعل کا متقاضی ہو۔ اور یہ اصل کی فرع ہے لغوی حکم اور ظاہری معنی میں اس لفظ کی تعریف کا فرق موجود ہے۔

الصفا ولاية ولها آية و رواية والتصوف حكاية للصفا بلاشكاية”

صفا ولایت کی منزل ہے اور اس کی چند نشانیاں ہیں اور تصوف صفاء کی ایسی حکایت و تعبیر ہے جس میں شکایت نہ ہو۔

علی ہجویری فرماتے ہیں کہ جب بندہ کا دل دنیاوی صفات سے خالی ہو جاتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کو دنیاوی کدورتوں سے بھی پاک وصاف کر دیتا ہے۔ یہ حال صوفی صادق کا ہے ۔ صفا کدورت کی ضد ہے اور کدورت بشری صفات میں سے ہے ۔ حقیقتا صوفی وہ ہے جو بشری کدورتوں سے گزر جائے ۔ اسی لیے مشائخ طریقت فرماتے ہیں کہ حالت صفا بشری صفات میں نہیں اس لیے کہ بشر تو مٹی کا ایک تو وہ ہے اور مٹی کا تودہ کدورت سے خالی نہیں ہوتا۔ بشری حالت میں کدورتوں سے نجات ممکن نہیں اور محض مجاہدوں سے بشریت زائل نہ ہو گی کیونکہ صفت احوال و افعال سے منسوب ہے نہ نام و القاب ہے۔

“صفا” دوستوں کی صفت ہے جو اپنے محبوب حق تعالیٰ جل شانہ کی رضا کی خاطر بشری صفات فنا کر کے حق تعالیٰ کی محبت کی صفت کے ساتھ باقی رہ جاتے ہیں۔ جب بندہ مقامات کی بندشوں اور احوال کی کدورتوں سے نجات پاکر تغیر و تکون کی حدود سے باہر آتا اور صفات محمودہ سے متصف ہو جاتا ہے تو وہ صفا پالیتا ہے ، وہ صفا جس کے لیے بلازوال حضور (یعنی کیفیت احسان) اور بلا سبب وجود ضروری ہے اور یہ حقیقت الفاظ و عبارات و اشارات سے بلند ہے۔

ہجویری فرماتے ہیں کہ آج جو لوگ طریقت و تصوف کے مدعی نظر آتے ہیں وہ اصول طریقت کے خلاف عمل کرتے اور طریقت کو بد نام کرتے ہیں … اللہ تعالی نے ہمیں ایسے زمانے میں پیدا فرمایا ہے کہ لوگوں نے اپنی خواہشات کا نام شریعت ، حب جاہ کانام عزت، تکبر کا نام علم ، ریا کاری کا نام تقویٰ، کینہ چھپانے کا نام حلم ، مجادلہ کا نام مناظرہ، محاربہ کا نام عظمت، نفاق کا نام وفاق، آرزو اور تمنا کا نام زہد ، بذریان طبع کا نام معرفت، نفسانیت کا نام محبت، الحاد کانام فقر، انکار وجود کا نام صفوت ، بے دینی و زندقہ کا نا فنا نبی کریم کی شریعت کو ترک کرنے کا نام اور طریقت اہل دنیا کی آفات کا نام معاملہ رکھ لیا ہے ، اس بنا پر ارباب معانی و عارفان حقیقت نے لوگوں سے کنارہ کشی کر کے گوشہ خلوت میں رہنا پسند کیا۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یہ بھی پڑھیں