شکیلہ اختر کی حیات و خدمات
اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا کہ بہار کی خواتین افسانہ نگاروں میں شکیلہ اختر سب سے ممتاز اور منفرد افسانہ نگار ہیں انہوں نے بری صغیر ہندو پاک میں اپنی ایک شناخت قائم کی اور ریاست کی دوسری خواتین افسانہ نگاروں کو بھی ایک حوصلہ عطا کیا ۔ شکیلہ اختر نے با ضابطہ طور پر افسانہ نگاری سے پہلے ادب لطیف جیسے نثر پارے تحریر کئے اور شاعری بھی کی۔ لیکن ان کا میلان طبع افسانہ نگاری کی طرف زیادہ تھا۔ لہذا اس میدان میں انہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
شکیلہ اختر کی کہانیوں میں عام طور پر متوسط مسلم گھرانے کا ماحول ملتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کے حالات و کوائف کو بہت سلیقے اور قرینے سے پیش کرنے کا ہنر جانتی تھیں۔ ان کے یہاں غایت درجے کی دروں بینی ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گہری داخلیت کی بنیادوں پر ان کے متعدد افسانے اردو کی دوسری معروف افسانہ نگاروں سے ممتازتر ہیں ۔ شکیلہ اختر کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے کرب کو وسعت دیکر ہمہ گیر بنا دینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی تھیں ۔
شکیلہ اختر گیا ضلع کے ارول گاؤں میں 16 اگست 1916 کو پیدا ہوئیں ۔ بعد میں ارول جہان آباد کا حصہ ہو گیا اور اس وقت ارول کو خود ضلع کا درجہ حاصل ہو چکا ہے ۔ سون ندی کے ساہل پر بسا ہوا ارول ایک خوب صورت اور مشہور قصبہ ہے۔ یہاں شاہ محمد توحید صاحب کا گھرانہ معزز اور ذی ثروت گھرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ شاہ محمد توحید صاحب شکیلہ کے والد تھے۔
شکیلہ اختر کا پہلا افسانہ رحمت ہے جو 1936 میں ادب لطیف میں شائع ہوا۔ ان کے افسانوں کے ۶ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ در پن، آنکھ مچولی ، ڈائن، آگ اور پتھر، لہوں کے مول ، آخری سلام ۔ انہوں نے تنکے کا سہارا کے نام سے ایک ناولٹ بھی تحریر کیا۔
شکیلہ اختر کی ایک خوبی یہ ہے کہ اپنے تمام افسانوں میں انہوں نے افسانے کے روایتی انداز کو قائم رکھا ہے۔ ان کے افسانوں میں ماجرا سازی، کردار نگاری، اور بھر پور فضا آفرینی ہر جگہ ملتی ہے۔ عورتوں کی نفسیات پر بھی ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔
شکیلہ اختر نے تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی اور باضابطہ طور پر کبھی اسکول اور کالج میں نہیں پڑھا۔ ان کو ادبی خدمات کے لیے مختلف ریاستوں کی اردو اکادمیوں نے اعزازات اور انعامات سے نوازا۔ آل انڈیا ریڈیو پٹنہ کی مشاورتی کمیٹی اور بہار اردو اکادمی کی مجلس کے عاملہ کی ممبر بھی رہیں ۔ 10 فروری 1994 کو ان کا انتقال ہو گیا۔