سلسلہ چشتیہ
حضرت ابو احمد چشتی سے منسوب سلسلہ جس کے حقیقی بانی بعض محققین کے نزدیک حضرت ممشاد علو دینوری تھے ۔ اور بعض محققین کے نزدیک حضرت ابو اسحق شامی حضرت ابو احمد چشتی قدس سرہ نے چشت ( ہرات کے قریب واقع ایک گاؤں) سے تحصیل علم کے لیے شام کا سفر فرمایا تھا جہاں علوم ظاہرہ کی تکمیل کے بعد حضرت ابو اسحق شامی کے ہاتھ پر باطنی تربیت کے لیے شرف بیعت حاصل کیا اور وہیں کے ہو رہے۔ بعض تذکروں کے مطابق آپ کے فرزند ابو محمد چشتی، بعض کے مطابق سلطان سخی سرور اور اکثر کے مطابق حضرت سید معین الدین حسن سجزی (معروف به خواجه غریب نواز و خواجہ اجمیری) قدس سرہ نے اپنے شیخ حضرت عثمان ہرونی قدس سرہ کے حکم پر ہندوستان کا رخ کیا۔ راستہ میں بغداد ، سمرقند ، بخارا، نیشاپور ، تبریز ، اوش، اصفهان، سبزوار، استر آباد، بلخ وغیرہ سے گذرتے لاہور پہنچے ، سید علی ہجویری کے مزار کی زیارت کی ، مراقبہ کیا، پھر اجمیر کا رخ کیا اور شہر اجمیر کے نواحی علاقہ میں قیام پذیر ہوئے۔
چھٹی صدی ہجری کے اواخر سے آٹھویں صدی ہجری کے وسط تک شمالی ہند، راجپوتانہ اور پنجاب میں اکابر چشتی صوفیہ نے خانقاہیں قائم کر کے ان کو دعوت دین اور تربیت سالکین کا مرکز بنایا اور قصبات اور دیہاتوں میں خدمت خلق میں لگ گئے ۔ حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی قدس سرہ کے ایک خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار اوشی کا کی نے دہلی کو مرکز بنایا اور دوسرے خلیفہ حضرت حمید الدین ر ( پنجاب ) کو۔ ان بزرگوں کی وفات کے بعد حضرت شیخ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر قدس سرہ نے اجود ہن / پاک پٹن سے اپنے خلفاء کو اسلامی ہند کے مختلف علاقوں میں خدمت دین، خدمت باطن اور خدمت خلق کے لیے روانہ فرمایا، بابا فرید کی اپنی شخصیت ایسی مسحور کن تھی کہ آپ پر نظر پڑتے ہی حق پرستی کا جذبہ بیدار ہو جاتا، پاک پٹن کے اطراف مرتاض جو گی اور غیر مسلموں کے گروہ کے گروہ ناگوری مشرف بہ اسلام ہوئے۔
آپ کے خلفاء میں حضرت جمال الدین بہانسوی، حضرت نظام الدین سلطان المشائخ، حضرت علاء الدین علی احمد صابر ، حضرت زین الدین دمشقی، حضرت بدرالدین الحق، حضرت بدرالدین سلیمان (صاحبزاده و سجادہ نشین بابا فرید) حضرت عارف سیوستانی، حضرت داؤد پایلی اور حضرت نجیب الدین متوکل نے دین و طریق کی بڑی خدمت کی اور بندگان الٹی نے بھاری تعداد میں ان سے فیض اٹھایا۔ حضرت بابا فرید کی وفات کی بعد حضرت شیخ نظام الدین سے سلسلہ نظامیہ، حضرت علاء الدین علی احمد صابر سے سلسلہ صابر یہ اور حضرت جمال الدین ہانسوی سے سلسلہ جمالیہ جاری ہوئے۔ سلسلہ جمالیہ بعد میں سلسلہ نظامیہ میں ضم ہو گیا۔
حضرت شیخ نظام الدین سلطان المشائخ نے غیاث پور (دہلی) کو مرکز بنا کر تا عمر بندگان الہی کی بڑی رہنمائی کی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء اسلامی ہند میں پھیل گئے۔ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلی محمد بن تغلق کی زیادتیاں بہتے دہلی ہی میں طریق کی خدمت میں لگے رہے جب کہ حضرت اخی سراج بنگال چلے گئے۔ جہاں نہ صرف انھوں نے بلکہ ان کے خلیفہ شیخ علاء الدین کے خلفاء حضرت سید نور قطب عالم اور حضرت سید محمد اشرف جہانگیر سمنانی قدمت اسرار ہم نے دین اسلام اور سلسلہ چشتیہ کی تعلیمات کو بنگال، بہار اور مشرقی اتر پردیش میں مقبول بنا دیا۔ حضرت منتجب الدین زر بخش، حضرت امیر حسن علاء سنجری اور حضرت برہان الدین غریب علیہم الرحمہ نے دولت آباد میں قیام فرمایا اور دین اسلام اور چشتی اصولوں کی آبیاری کی ۔ حضرت سید محمد حسینی گیسو دراز کی آمد سے گلبرگہ میں چشتی مرکز قائم ہو گیا اور بیجاپور میں میراں جی شمس العشاق، برہان الدین جانم اور شاہ امین الدین علی اعلیٰ حیدر آباد، حضرت سید میراں جی حسین خدا نما، حضرت شاہ حمید اللہ ، حضرت حافظ محمد علی خیر آبادی، حضرت مرزا سردار بیگ، حضرت معین الدین شاہ خاموش، گجرات میں حضرت شیخ محمود، حضرت شیخ حمید الدین (خلفاء حضرت قطب الدین بختیار کاکی)، حضرت سید حسن، حضرت حسام الدین ملتانی، حضرت بارک اللہ مریدین حضرت نظام الدین ) علامہ کمال الدین ( حضرت شیخ نصیر الدین محمود کے بھتیجے ) اور ان کے فرزند حضرت سراج الدین نے سلسلہ چشتیہ کی تنظیم و توسیع کا کام بڑی تن دہی سے کیا، شیخ وجیہ الدین، شیخ کمال الدین اور مولانا مغیث الدین نے مالوہ میں چشتی تعلیمات کو عام کیا۔ حضرت شاہ کلیم اللہ شاہجہان آبادی نے دہلی اور شمالی ہند میں اور ان کے خلیفہ حضرت نظام الدین اورنگ آبادی نے دکن میں سلسلہ چشتیہ کا احیاء فرمایا ۔
حضرت شاہ فخر الدین کے خلیفہ حضرت شاہ نور محمد ، شاہ سلیمان تونسوی اور ان کے مریدین نے چشتی تعلیمات کو پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبوں اور اتر پردیش میں پھیلایا اور حضرت شاہ نیاز احمد نیاز بریلوی نے دہلی اور اتر پردیش میں سلسلہ کی خدمت فرمائی۔
سلسلہ صابریہ کے بانی حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابر ( متوفی 709ھ) ذات مطلق کے غلبہ مشاہدہ، استغراق، شوق و عشق کی فراوانی اور غیرت احدیت سبحانی و فنا و تحیر میں گم ایسے صوفی تھے جو بابا فرید کے اولین اور ممتاز ترین خلفاء میں شمار کیے جاتے تھے ۔ آخری عمر میں اپنے خادم خاص حضرت شمس الدین ترک کو خرقہ خلافت دے کر شہر پانی پت کی طرف رخصت فرمایا۔ اس علاقہ کی خلقت نے نسبت جذب کے باعث یا کسی اور سبب آپ کی طرف برائے حصول سعادت ہجوم فرمایا اور سلسلہ چشتیہ کی تعلیمات کو آپ سے اخذ کیا۔ آپ نے اپنے وصال سے پہلے حضرت جلال الدین کبیر الاولیاء عثانی پانی پتی کو خلافت کی ذمہ داری عطا کی، ایک جہاں کا جہاں آپ سے فیض یاب ہوا۔ حضرت جلال الدین کبیر الاولیاء عثمانی پانی پتی سے دین اسلام کو شوکت اور سلسلہ چشتیہ صابریہ کو بہت فروغ ملا۔ آپ کے مرید و خلیفہ حضرت شیخ حمد عبد الحق ردولوی تھے۔ جن کی بابت حضرت جلال الدین کبیر الاولیا نے فرمایاتھا۔ بابا عبدالتی حیات و ممات میں مجھ کو تمہارے کمالا کی انتہا نظر نہیں آتی۔ ” حضرت ام عبد الحق ردولوی ہ نے فرمایا تھا حسین ابن منصور بچہ تھا، راز فاش کر گیا۔ بعض مردان الی دریا کے دریائی جاتے ہیں اور آواز نہیں نکالتے ۔ آپ نے اپنے صاحبزادوں کی تربیت بھی حضرت شیخ احمد عبد الحق کے سپر د فرما دی تھی جس سے حضرت جلال الدین کی نظر میں حضرت شیخ احمد عبد الحق کے مقام شناسی کی جھلک ملتی ہے۔ حضرت شیخ جلال الدین کے دیگر 39 خلفاء نے بھی اپنی اپنی جگہ دین و طریق کی خدمت کی لیکن حضرت شیخ احمد عبد الحق ردولوی کے صاحبزادہ و سجادہ نشین حضرت شیخ محمد کے حلقہ ارادت میں حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی جیسا شہباز وقت داخل ہوا جس نے ذکر بالجہر کو ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ اس کے آگے کوئی مقام غیر منصور ہے۔ آپ کے مکتوبات کے مجموعہ کا مقام اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت رشید احمد محدث گنگوہی جیسے محتاط متقی فقیہ وقت نے جن کو نسبت حضوری حاصل تھی ایک مرتبہ فرمایا کہ میری مشکلات مکتوبات قدوسیہ کے مطالعہ سے حل ہوتی ہیں۔ ” اقتباس الانوار” میں ایک صاحب استدراج جوگی کے اپنے سات سو (700) چیلوں سمیت مشرف بہ اسلام ہونے اور آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہونے کا واقعہ درج کیا گیا ہے ۔ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی کے خلفاء میں حضرت رکن الدین (فرزند عبداللہ گنگوہی)، حضرت جلال الدین تھانیسری، حضرت عبدالغفور اعظم پوری، حضرت عبد العزیز کیرانوی، حضرت عبدالستار سہارنپوری، حضرت عبد الاحد مخدوم ( والد شیخ احمد سرہندی) حضرت میر رفیع الدین اکبر آبادی اور حضرت عبد الرحمن نے خدمت دین و خدمت طریق میں شہرت پائی، ویسے آپ کے خلفاء کی تعداد پانچ ہزار تک بتائی گئی ہے ۔ آگے حضرت شیخ نظام الدین بلخی (متوفی 1036 ھ ) حضرت ابو سعید گنگوہی، حضرت شاہ محب اللہ صدیقی (صدر پوری ثم ) الہ آبادی (متوفی 1058ھـ ) حضرت شیخ محمد صادق، حضرت عبد الجلیل الہ آبادی، حضرت داود گنگوی، حضرت شیخ سوند با حضرت شیخ محمد اکرم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، شیخ الاسلام حافظ انوار اللہ خاں حضرت رشید احمد محدث گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی، شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا خلیل احمد انبہٹوی، حضرت معین الدین شاه خاموش (حیدرآباد) قدمت اسرار ہم کی مساعی سے سلسلہ چشتیہ صابریہ کو انتہائی فروغ حاصل ہوا، اور حضرت مولانا الیاس کاندھلوی کی تحریک دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سلسلہ کی تعلیمات، قرآن و سنت کی اتباع کا شوق، پیغام توحید و محبت و انسانیت، اخلاص و صدق عمل ، کلمہ طیبہ کے تقاضوں کا احساس، عبادات میں البیت، معاملات میں صفائی اور معاشرت میں خوش خلقی کا اہتمام، علم کے حصول اور ذکر الہی کا تحقق حسب استعداد گھر گھر پہنچ گئیں۔