سلسلہ چشتیہ کی تعلیمات
حضرات فقہاء و صلحاء سلسلہ چشتیہ کی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
- چشتی تعلیمات میں توحید کے ساتھ تو کل، کے قائل ہیں بادشاہوں، امر اسے دوری رکھتے ہیں۔
- تخلیہ ( رذائل سے نجات)، تحلیہ (فضائل اخلاق سے آراستگی)، تجلیہ ( آئینہ قلب کی جلاء) کے ذریعہ قرب الہی کی کوشش کی جاتی ہے۔
- ذکر الہی کی مداومت، مجاہدات، محاسبات، مراقبات، مشاہدات اور اذکار و اوراد کے ذریعہ معائنہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔
- علم الیقین کو حق الیقین اور معرفت اجمالی کو معرفت تفصیلی میں تبدیل کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔
- فناء نفس کے ذریعہ غناء الفنا کے مقام تک پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے اور تواضع و انکساری اور ، حب شرعی کی تحصیل کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مقام فنا اور حق الیقین کے لیے مخصوص اوقات میں ذکر جہری اور ہمہ وقت ذکر سری کی تلقین کی جاتی ہے ۔ اسکے علاوہ مراقبہ کے ذریعہ تزکیہ اور چلہ کاٹنے کے ذریعہ لگا تار عبادت میں لگا تار مشغول رہنے کی تاکید کی جاتی ہے۔
- چشتیہ سلسلے میں مرید یا سالک کو ان اوصاف کو پیدا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے : خود کو آفتاب ( جس کی روشنی مومن و کافر سب کے لیے عام ہے )، بے تھاہ میٹھا چشمہ (جو ساری کڑواہٹیں اور کثافتیں قبول کر لیتا ہے لیکن بیٹھا اور پاک ہی رہتا ہے ) اور زمین ( جو برابر پامال ہوتی رہتی ہے لیکن حرف شکایت زبان پر نہیں لاتی )
- اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دائمی استحضار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم و توقیر ، اتباع سنت نبی کریم و صحابہ کرام، قرآن وحدیث کی ظاہری و باطنی اط نی اطاعت، شریعت، طریقت اور حقیقت پر عمل، علو ہمت، اذکار و اشغال کی پابندی سلسلہ چشتیہ کی خصوصیات سےہیں۔
- چشتی تعلیمات میں کتابی اعتبار سے شیخ شہاب الدین سہروردی کی کتاب عوارف المعارف کا رواج ہے ۔ اس کے علاوہ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی کتاب کشف المحجوب کو بھی کافہ اہمیت حاصل ہے۔ اسکے علاوہ چشتہ بزرگوں جیسے بختیار کا کی، نصیر الدین چراغ دہلی، نظام الدین اولیا وغیرہ کے ملفوظات کا مطالعہ بھی شامل ہے۔