سلسلہ نقشبندیہ
یہ سلسلہ حضرت شیخ بہاء الدین محمد بن محمد البخاری (717 تا 790ھ) سے منسوب ہے جن کا لقب ”نقشبند “ تھا۔ بعض تذکروں میں وجہ تسمیہ کپڑوں کی رنگ ریزی یا نقش اندازی بتایا گیا ہے جسے ممکن ہے حلال ذریعہ معاش کے طور پر آپ۔ نے یا آپ۔ آپ کے والد ماجد نے اختیار کیا ہو ، اور بعض میں قلب سالک پر اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم یا اللہ تعالیٰ کے ذکر کی نقش اندازی بتایا گیا ہے۔ آپ کی ولادت بخارا سے کچھ فاصلہ پر واقع ایک گاؤں کشک ہندواں یا کو شک ہندواں میں ہوئی جسے بعد میں قصر عافاں سے موسوم کیا گیا۔ ولادت کے تیسرے روز آپ کے جد امجد آپ کو حضرت خواجہ محمد بابا سماسی قدس سرہ کی خدمت میں لے گئے ، بابا سماسی نے آپ کی تربیت کی ذمہ داری اپنے عزیز خلیفہ خواجہ شمس الدین امیر کلال (کوزہ گر ) کے سپرد کی۔ اٹھارہ برس اس کی عمر ہوئی تو حضرت بہاء الدین نقشبند کے جد امجد کو آپ ۔ کے نکاح کی فکر ہوئی اور اس مجلس نکاح میں برکت کے نزول کی غرض سے آپ کو بابا سماسی کی خدمت میں بھیجا۔
حضرت بابا سماسی پر آپ کے کچھ واقعات اور خطرات منکشف ہوئے ، انہوں نے بڑی شفقت سے اصلاح فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ باطن کی حفاظت کرنی چاہیے ۔ حضرت بابا سماسی بہاء الدین محمد نقشبند کی تربیت باطنی فرماتے رہے اور وفات سے پیشتر آپ کو خلافت سے نوازا۔ لیکن شورش باطن آپ کو سمرقند و بخارا اور پھر نسف کھینچ لائی جہاں حضرت شمس الدین امیر کلال نے آپ کو بطریق خفی ذکر نفی و اثبات (لا الہ الا اللہ ) کی تلقین کی اور اخبار رسول اللہ اور آثار صحابہ کی تحقیق اور تحقیق کے مطابق عمل کا حکم فرمایا۔ پھر حضرت امیر کلال ہی کے حکم پر مولانا عارف دیگرانی کی خدمت میں سات برس گزارے، پھر درویش سلطان خلیل کے پاس بارہ برس ملازمت کی، زوال سلطنت کے بعد سات برس خدمت خلق کی اور سات برس راستوں کی مرمت میں صرف کیے۔ پھر وطن لوٹے اور طالبین حق کی رہنمائی میں مشغول ہو گئے۔
حضرت بہاء الدین محمد نقشبند سے پہلے یہ سلسلہ طریقہ خواجگان کہلاتا تھا اور حضرت عبد الخالق غجدوانی خلیفہ یوسف ہمدانی کے بتائے آٹھ کلمات (1) ہوش دردم (2) نظر بر قدم (3) سفر در وطن (4) خلوت در انجمن (5) یاد کرد (6) بازگشت (7) نگاه داشت اور (8) یاد داشت ، اس کی خصوصیات سے تھے۔ حضرت نقشبند نے ان میں تین کلمات کا اضافہ فرمایا (9) و قوف عددی (10) و قوف زمانی اور (11) و قوف قلبی ۔ حضرت عبد الخالق مجید وانی ہی نے چند وصیتیں بھی فرمائی تھیں جو سلسلہ کی بنیاد مانی گئیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے :
پیارے فرزند ! تقوی کو اپنا شعار بناؤ ، وظائف و عبادات کی پابندی کرو اور احوال کی نگہبانی، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ۔ حقوق اللہ حقوق الرسول، حقوق الوالدین، حقوق المشائخ کی ادائیگی کی سعی کرتے رہو تا کہ رضائے الہی سے مشرف ہو جاؤ … قرآن مجید کی تلاوت ، بلند آواز سے یا آہستہ ، تفکر ، خوف اور گریہ کے ساتھ پابندی سے کرو۔ تمام امور میں قرآن کی پناہ لو کہ وہ بندوں پر حق تعالیٰ کی حجت ہے۔ علم فقہ اور علم حدیث سیکھو ۔ جاہل صوفیوں سے دور رہو کہ وہ دین کے راہزن ہیں۔ اہل السنت و الجماعت اور ائمہ سلف کے مسلک کو اختیار کرو … عورتوں، نو عمر لڑکوں، بدعتیوں اور دولت مندوں سے صحبت مت رکھو کیوں کہ یہ دین کو برباد کر دیتے ہیں۔ فقراء کی صحبت، خلوت نشینی، رزق حلال اور قناعت اختیار کرو۔ حق تعالی کے جلال کا استحضار رکھو اور یوم حساب کو فراموش نہ کرو… نہ کسی کی مدح سے مغرور ہو نہ کسی کی خدمت سے غمگین … لوگوں سے حسن خلق سے پیش آؤ، نہ اللہ کے عذاب سے بے خوف ہو نہ اس کی رحمت سے ناامید ، کثرت سے نمازیں پڑھو ، روزے رکھو، مشائخ کی خدمت کرو، ان میں سے کس کا انکارنہ کروالا یہ کہ وہ خالف شرع و وامر و نی و بخل و حد سے کو… نفس کی ضرورتوں کاخیال رکھو لیکن اس کی عزت اور این کلام سے بھی کم بولو کم کھا اور سود سماع میں بہت نہ بیٹھو کہ سماع کی کثرت سے نفاق پیدا ہوتا ہے اور دل مردہ سماع کا انکار بھی نہ کرو۔ سماع جائز نہیں مگر اس شخص کے لیے جس کا دل زندہ ہو اور نفس مردہ ہو… چاہے کہ تمہار او غمگین بودن یار آنکھ اشکبار، مل خالص، عامجاہد کے ساتھ کپڑ پر تاری در دیش گھر سجد، مالک کی دین، آرائش زید اور مونس پای تعالی ہو۔ اس شخص کی صحبت اختیار کرو جن میں پانچ خصلتیں ہوں :(1) فقیری کو ا میری پر ترجیح دے (2) دین کو دنیا پر ترجیح دے (3) ذلت کو عزت پر ترجیح دے (4) علم ظاہر و باطن کا جاننے والا ہو (5) موت کے لیے تیار ہو ۔
حضرت بہاء الدین نقشبند قدس سرہ نے حسب ضرورت میں ترمیم واضاف فرمایا ماما کی بات فرمایا کہ ہم یہ کام نہیں کرتے اور انکار بھی نہیں کرتے اور فرمایا کہ ہمارا طریق صحبت ہے (یعنی موافقان طریق کی صحبت) کیونکہ خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی وفات 3 ربیع الاول 791ھ میں ہوئی۔ آپ کے خلفاء میں حضرت علاء الدین عطار (متوفی 802ھ) سے سلسلہ نقشبندیہ آگے بڑھا اور حضرت ناصر الدین عبید اللہ احرار، حضرت عبد الرحمن جامی (صاحب نفحات الانس“) حضرت محمد زاہد و خشی ، حضرت درویش محمد ، حضرت خواجگی امکنگی، حضرت باقی باللہ ، حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی (صاحب مکتوبات امام ربانی “ حضرت شیخ محمد سعید ، حضرت شیخ محمد معصوم ، حضرت شیخ محمد یحییٰ، حضرت شیخ محمد باشم کشمی، حضرت سید آدم بنوری، حضرت میر نعمان کشمیری، حضرت سید نور محمد بدایونی ، حضرت میرزا مظہر جان جاناں، حضرت شاہ عبداللہ معروف به شاه غلام علی دہلوی ، حضرت شاہ عبد الرحیم فاروقی ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی ( صاحب تفسیر مظہری و رساله در تصوف ” ارشاد الطالبین “) اس سلسلے کے معروف بزرگ ہیں۔ دکن میں حضرت مسکین شاہ، حضرت سعد اللہ ، حضرت بخاری اور حضرت عبد اللہ نقشبندی نے سلسلہ کی غیرمعمولی خدمت فرمائی۔
حضرت عبید اللہ احرار کے ذریعہ سلسلہ نقشبندیہ وسطی ایشیا میں پھیلا ، حضرت باقی باللہ اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے ذریعہ بر صغیر ہند و پاک اور مولانا خالد رومی نقشبندی کے ذریعہ عالم عرب اور ترکی میں حتی کہ ”مکتوبات امام ربانی“ کے ترکی، عربی اور اردو میں متعدد مکمل تراجم اور انگریزی میں جزوی ترجمے بھی ہوئے۔