مثالی بیٹی کی چند صفات
ساس اور بہو کے درمیان اختلافات کی وجوہات
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بہو اور ساس میں کیوں اختلاف ہوتا ہے؟ تو اس کی کچھ وجوہات ہیں :
- پہلی وجہ: یہ ہوتی ہے کہ ان کے کردار تبدیل ہورہے ہوتے ہیں، شادی سے پہلے لڑکے کا پورا کا پورا اپنی ماں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، اس کے ماتحت ہوتا ہے، اس کے مشورے قبول کرتا ہے اور ماں کا حکم چلتا ہے۔ اب جب شادی ہوگئی تو بیوی کا ایک فیکٹر (فرد) اور درمیان میں آگیا کہ اب خاوند کو بیوی سے بھی پیار کرنا ہے، بیوی کا بھی مشورہ قبول کرنا ہے، بیوی سے بھی محبت پیار سے رہنا ہے، تو ساس یہ محسوس کرتی ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے دور ہو رہا ہے اور بہو یہ محسوس کرتی ہے کہ جب اس سے میری شادی ہو گئی تو یہ تو اب میرا ہے۔ اب ماں کو کیا ضرورت ہے کہ اس کو اپنے ساتھ رکھے؟ چنانچہ بہو کے جذبات اور ہوتے ہیں اور ساس کے جذبات اور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے درمیان اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔
- Competing for primary position in family دوسری وجہ : پھراگر اکٹھے رہ رہے ہیں تو گھر میں بات کس کی چلے گی ؟ مشورہ کس کا چلے گا ؟ فائنل حکم کس کا چلے گا ؟ اس پر بھی کھینچا تانی ہوتی ہے۔ بہو چاہتی ہے کہ میری بات کو وزن دیا جائے اور ساس کہتی ہے کہ گھر تو میرے بیٹے کا ہے، تو یہاں پر میری بات چلے گی ، تو یہ بات بھی اختلاف کی وجہ بنتی ہے۔
- تیسری وجہ: پھر بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ ساس ہر چھوٹی چھوٹی بات میں مداخلت کرتی ہیں ۔ اس کو ہر بات میں دوسرے کو نصیحت کرنے کا مرض ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک بیماری ہے۔ چنانچہ بہو کو ہر چھوٹی چھوٹی بات پر وہ نصیحت کرے گی اور وہ نہیں سمجھے گی کہ میں اپنی طرف سے تو اس کو مشورہ دے رہی ہوں ، مگر اس کو میرا مشورہ بوجھ لگ رہا ہے، وہ اس سے تنگ ہو رہی ہے، اور یہ چیز بہو اور ساس کے درمیان توازن کو خراب کر دیتی ہے۔
- چوتھی وجہ : کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے بڑی بڑی اُمیدیں ہوتی ہیں ۔ جب کوئی ایک اُن اُمیدوں پر پوری نہیں اُترتی تو یہ بات اختلاف کا باعث بن جاتی ہے۔
- پانچویں وجہ: کئی مرتبہ اس بات پر بھی آپس میں کھینچا تانی ہوتی ہے کہ بیوی چاہتی ہے کہ خاوند سارا کا سارا مجھ سے ہی محبت کرے اور ماں چاہتی ہے کہ نہیں ! جیسے شادی سے پہلے سارا کا سارا بیٹا میرا ہی تھا ، یہ اسی طرح رہے، اور یہ چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بدمزگی کا سبب بن جاتی ہیں ۔ کئی جگہوں پر ہم نے دیکھا کہ سسرال والوں کی مداخلت بہت زیادہ ہوتی ہے، یہ چیز اچھی نہیں ہے۔ شریعت نے کچھ حدود مقرر کی ہیں، اگر ہم اس کے مطابق زندگی گزاریں گے تو زندگی اچھی گزرے گی۔
سسرال والوں کو اس بات کا احترام کرنا چاہیے کہ جس لڑکی کو نکاح کے بعد وہ آدمی لے کر آیا ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے، وہ اُن کے بیٹے کا گھر آباد کرنے کے لیے عزت والے گھر سے چل کر آئی ہے۔ یہ اگر اس بچی کو عزت دیں گے تو وہ ان کی عزت کرے گی ۔ اور کئی جگہوں پر تو ہم نے دیکھا کہ جہاں دین زیادہ نہیں ہوتا وہاں تو فیملی کے اندر گروپ بندی شروع ہو جاتی ہے اور گھریلو جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ شادی کیا ہوئی ایک جنگ شروع ہوگئی ! جو بے وقوفی کی علامت ہوتی ہے حتی کہ جو پوتے پوتیاں ہوتے ہیں اُن کو بھی اس کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ ماں بچوں کو سمجھاتی ہے کہ تم نے دادی سے نہیں ملنا تم نے فلاں نہیں کرنا۔