حکیم الامت اور ڈربہ کی مرغیاں
حضرت مولانا محمد یونس صاحب پالنپوریؒ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمہ اللہ نے مجھے خود یہ واقعہ سنایا کہ بڑی پیرانی صاحبہ نے حضرت (حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ) سے کہا کہ مولانا ذرا رشتہ داری میں جارہی ہوں۔ یہ مرغیاں جو ہم نے پالی ہیں آٹھ بجے دن میں ان کو ڈربہ سے نکال دینا اور دانہ پانی دے دینا۔
اب اتنا بڑا مجدد زمانہ حکیم الامت جو ساٹھ خطوط کا روزانہ جواب لکھے اور پندرہ سو کتابیں لکھنے والا اس کو بھلا مرغیاں کہاں یاد رہتیں؟ حضرت بھول گئے، مرغیاں ڈربہ میں بند رہیں۔ اب خطوط کا جواب ندارد، تفسیر بیان القرآن کے لئے قلم اٹھایا سارے علوم ختم۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ دل میں اندھیرا آگیا، سارے علوم و معارف غائب ہو گئے ۔ حضرت رحمہ اللہ سجدہ میں گر کر رونے لگے کہ یا اللہ مجھ سے کیا خطا ہوگئی؟ کیا گناہ ہے کہ جس سے آج تیری نگاہِ کرم میرے دل پر سے ہٹ گئی اور میرے دل سے سارے علوم غائب ہو گئے؟ میں تو آج دل کو بالکل خالی پارہا ہوں۔ آسمان سے زور سے آواز آئی کہ اشرف علی! میری مخلوق، مرغیاں ڈربہ میں بند ہیں آج وہ اندر اندر کڑھ رہی ہیں میری مخلوق کوستا کر علوم و معارف کا انتظار کرتے ہو! جاؤ جلدی مرغیوں کو کھولو۔ حضرت رحمہ اللہ کانپ گئے، بھاگے ہوئے گئے ، مرغیوں کو کھولا اور دانہ پانی رکھ دیا۔ جب واپس آئے تو دل میں فوراً سارے علوم کا دریا بہنے لگا۔
ایک جانور پر ظلم کا تو یہ عذاب ہے اور ہمارا کیا حال ہے؟ سگا بھائی سگے بھائی کو ستا رہا ہے، شوہر بیوی کو ستارہا ہے، ماں باپ سے لڑائی، محلہ میں پڑوسیوں کو ستایا جا رہا ہے ۔ ذرا ذرا سی بات پر ڈنڈا چل رہا ہے ۔