حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ : ایک شخص،ایک کارواں
محمد منہاج عالم ندوی
تاریخ کے ہر دور میں بہار کی سرزمین نے ہزاروں لعل وگوہر پیدا کیے، جنہوں نے قوم وملت کی قیادت ورہبری سے امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کو نہ صرف یہ کہ بحال کیا؛بلکہ ان کا کھویا ہوا مقام ومرتبہ بھی واپس دلایا، انہیں میں ایک عظیم المرتبت شخصیت، بزرگوں کے تربیت یافتہ،مدبر ومصلح امیر شریعت سادس امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ،جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ ورکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ کی تھی، آپ کی پیدائش 13؍مارچ 1927مطابق 1345ھ کوضلع گیامیں ہوئی، آپ نے اپنی ابتدائی عربی کی تعلیم سے لیکر قدوری تک اپنے والد ماجد جناب قاضی حسین ؒسے حاصل کی اس کے بعد مدرسہ امدادیہ لہیریاسرائے کا رخ کیا بعد ازاں دارالعلوم دیوبند کے لیے رخت سفرباندھااوریہیں سے سندفراغت بھی حاصل کی۔

فراغت کے بعد آپ نے مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی مغربی چمپارن سے درس وتدریس کی شروعات کی اور کئی سالوں تک وہاں اپنی خدمات سے ادارہ کو ترقی واستحکام بخشا،اس کے بعد آپ نے مدرسہ رشیدالعلوم چترا میں بھی اپنی خدمات دی اوراس کے تعلیمی نظام کو مضبوط ومستحکم کیا، آپ نے ہزارو ں تشنگان علوم نبوت کو زیور علم سے آراستہ کرکے ایسے رجال کار تیارکیے جو ملک وبیرون ملک میں متنوع خدمات انجام دے رے ہیں۔ امارت شرعیہ کے چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کی نگاہ دوررس آپ کی شخصیت پر پڑی اورآپ نے اس قیمتی جوہر کو پرکھ لیااورامارت شرعیہ میں خدمت کرنے کی پیشکش کی، چنانچہ آپ 1965ء میں امارت شرعیہ تشریف لائے،حضرت امیر شریعت رابع ؒ نے آپ کو ناظم مقرر فرمایا، آپ امور نظامت سنبھالنے کے ساتھ ہی یہاں کے شعبوں کی ترقی واستحکام میں لگ گئے امیر شریعت ؒ اور قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کے معین ومددگار بن کر امارت شرعیہ کے کارواں کو آگے بڑھایا،ایک خیرخواہ اور مخلص خادم کی حیثیت سے تادم حیات تقریبانصف صدی اس سے منسلک رہ کر وقیع خدمات انجام دیں،وہ ادارہ کو مزید مستحکم اورپروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہے اورامیر شریعت کے احکامات وہدایات کو عملی جامہ پہنایا، تاآنکہ 1998ء میں امیر شریعت خامس کے بعد ارباب حل وعقد نے آپ کو امیر شریعت سادس منتخب کیا ایسے میں آپ کی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا اورآپ کے کاندھے پرمزید ذمہ داریوں کا بوجھ آ ن پڑا،آپ نے امارت شرعیہ کے بے لوث خادم،دھن کے پکے اوردین پر مرمٹنے والے سپاہی کی طرح ذمہ داریوں کو اداکیا اور سب کو ساتھ لیکر امارت شرعیہ کے کارواں کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک وملت کی جو بیش بہا خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے،جن کے ذکر کے بغیر امارت شرعیہ کی تاریخ کی تکمیل نہیں ہوسکتی، آپ نے امانت ودیانت کے ساتھ کاموں کو استحکام بخشا اورنظام امارت کو مضبوط تر بنایا، ایک موقع پرآپ نے فرمایا:
” یااللہ میں نے امارت شرعیہ کے نظام کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھا اورتسبیح کے اس دھاگہ کو ٹوٹنے اوراس کے دانے کو بکھرنے سے بچائے رکھا،بس یہی عمل لیکر آیا ہوں“(باتیں میر کارواں کی، ص:۵)
حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندویؒ سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ وسابق صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ تحریر فرماتے ہیں:
”مولانا سید نظام الدین نے مولانامنت اللہ رحمانی کی نمائندگی بڑی حسن وخوبی کے ساتھ انجام دی اورامارت شرعیہ سارے شعبوں کے ساتھ بڑے سلیقے سے کام کرتارہا،ان کی سرپرستی سے کام میں بڑی خوبی پیداہوئی“
ساتھ ہی آپ نے آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے جنرل سکریٹری ہونے کے ناطے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ لائق تحسین ہی نہیں قابل تقلید بھی ہے، آپ ملک میں امن وامان کی بحالی،فرقہ پرستی اور تشدد کے خلاف آوازیں بلند کرتے رہے،مسلمانوں میں آپسی اتحاد،بھائی چارہ،ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گذارنے کی تلقین کرتے رہے۔آپ نے قوم وملت کے مسائل اوران کی فریاد کو سنا،مشکل حالا ت میں ان کے حل نکالے اور بہتر ین رہنمائی فرمائی،بورڈ میں جب کسی قسم کا کوئی بحران آیا آپ نے حکمت عملی سے اسے دور کیا،اس کی عظمت وساخت کو بحال رکھا،ملک کے مایہ ناز عالم دین،ملی،سیاسی وسماجی رہنما،بے باک قائد امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒ آپ کے متعلق رقم طراز ہیں:
”مولانا سید نظام الدین ؒکی سب سے بڑی خصوصیت ان کا مزاج اوران کا مزاجی استقلال ہے، یہ ان کی غیر معمولی چیز تھی وہ امارت شرعیہ آئے اورامارت شرعیہ کے ہورہے،آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کا کام آپ نے سنبھالاتو پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیااوردیتے رہے، یقینا اس طرح یکسوئی کے ساتھ کام کرنادیگرکام کرنے والوں کے لیے ایک بڑاسبق ہے، جو لوگ ان کی یاد کو ایک رہنما کی حیثیت سے اپنے دل میں بسانا چاہتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مزاجی استقلال اورایک کام کا ہوکر زندہ رہنے کی خصوصیت کو اپنا ئیں تو بہت بڑا کام ہوسکتاہے،امارت شرعیہ پوری ملت کی امانت ہے، وہ گزر گئے،انھوں نے بہت بڑا ورثہ ہم سبھوں کے لیے چھوڑا ہے، خدمت کا ورثہ،امانت کا ورثہ،امت کے اتحاد کا ورثہ،”امارت“ کی شکل میں ”امارت“ نہیں چھوڑی، امارت کی تاریخ چھوڑی ہے، امارت کی روایتیں چھوڑی ہیں،امارت کاانداز عمل چھوڑا ہے، اس لیے ہم سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ اس ورثہ کو آگے بڑھائیں اورجس سے جہاں تک ہوسکتاہے امارت شرعیہ کی،ملت کی، قوم کی خدمت انجام دیں“۔(امیر شریعت سادس نقوش وتاثرات،ص:605 ، از محمد عارف اقبال)
میرے لیے حرماں نصیبی کی بات ہے کہ مجھے حضرت ؒ کو براہ راست دیکھنے اوراستفادہ کا موقع نہیں ملا، البتہ امارت شرعیہ سے منسلک ہونے کے بعد قلب وجگر نے آپ کواورآپ کی خدمات کو محسوس کیاہے،لوگوں سے سنااور سمجھا اور اس نادیدہ شخصیت کی خدمات اورکارناموں سے واقف ہوا،واقعتا حضرت امیر شریعت سادس کی زندگی سادگی کا نمونہ اورعلم وحلم سے بھرپور تھی،آپ میں متانت وسنجیدگی،صبروشکر،عفو ودرگزر کا جذبہ خوب تھا،آپ نے اپنے اخلاق وکردار، قول وعمل سے پیچیدہ مسئلوں کو حل فرمایا، آپ کا تعلق سیاسی، سماجی،مسلم وغیر مسلم ہر طبقہ کے لوگوں سے تھا،لوگ آپ سے سیاسی،سماجی معاملات کے علاوہ گھریلو مسائل میں بھی مشورہ کیاکرتے،آپ نے طویل زندگی پائی،ملکی منظرنامے پر مسلمانوں کودرپیش مسائل اورچیلیجز کا سامنا کیا،ان کے حل کے راستے نکالے،آپسی اتحاد وبھائی چارہ کو قائم رکھا،آپ نے عہدۂ نظامت اور امیر شریعت کے عہد میں بہت ساری ملی،فلاحی، تعلیمی امورکو نجام دیا، جملہ شعبہ جات کی ترقی و استحکام پر اپنی صلاحیت کوصرف کیا،فساد ہویاسیلاب،آسمانی آفات ہوں یا زمینی پریشانیاں،ہر ناگہانی موقع سے آپ نے خدمت خلق کے فریضہ کو انجام دیا،امارت کے قیام کے مقاصد تنفیذ شریعت علی منہاج النبوۃ، اتحاد امت،امیر کی اطاعت و فرما برداری پر زور دیا،امارت شرعیہ کے پیغام کو گھر گھر پہونچانے کی مہم چلائی، بدلتے ہوئے حالات میں نہ ڈرنے اور نہ کسی قسم کی گھبراہٹ وبے چینی میں مبتلا ہونے کی تلقین کی،جو آپ کی فکری بلندی،عزم وحوصلہ کی بالیدگی کابین ثبوت ہے،آپ نے 6 ؍جنوری 2003ء کو خطبۂ صدارت میں فرمایاتھا:
”امارت شرعیہ کا جو بنیادی پیغام ہے وہ اقامت دین اوراللہ کی دی ہوئی شریعت قائم کرنا ہے،خود تمہاری زندگی بھی روشن ہو اورلوگوں تک اس کی روشنی پھیلے اس مقصد کو سامنے رکھ کر کلمہئ واحدہ کی بنیاد پر ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گذاریں، جس طرح ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں،مسجد سے باہر کی زندگی میں بھی ہم کسی کو بڑا مان کر چلیں،بڑ امان کر چلنے میں ہماری اورآپ کی بھلائی ہے اورکسی کو بڑا مان کر چلنا اس کی اطاعت نہیں؛بلکہ اصل اطاعت اللہ کی ہے،حالات سے کبھی نہیں گھبرائیں،اللہ کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوں اوراپنے مشکلات ومسائل خود اپنی صلاحیت سے حل کرنے کی کوشش کریں،اگر ہم نے یہ سمجھ لیا اوراس کا فیصلہ کرلیا تو ان شاء اللہ حالات ہمارے موافق ہوں گے اورہمیں کامیابی نصیب ہوں گی۔(باتیں میر کارواں کی:ص 439،بحوالہ نقیب مورخہ 6؍جنوری 2003ء(
خلاصہ یہ کہ حضرت مولانا سید نظام الدین ؒ کی شخصیت ایک فرد نہیں؛بلکہ انجمن تھی،آپ خداداد صلاحیت وصالحیت کے پیکر تھے، آپ کے اندر فکرامت کی جو حرارت تھی سرد نہ ہونے دیا، زندگی کا بیشتر حصہ قوم وملت کے مسائل کے حل اور ان کی داد رسی میں گزرا،جب کوئی پریشانی یامصیبت آئی آپ کا دل دھڑک اٹھتا، اس کے حل کے راستہ نکالتے،آپ کو باری تعالیٰ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا، آپ کے اندر انتظام وانصرام کا ملکہ بھی تھااور قوت فیصلہ کا وافر حصہ بھی، آپ ایک ماہر استاد بھی تھے اور اچھے مربی بھی، شعروشاعری اور تصنیف وتالیف کا ملکہ بھی اللہ رب العزت نے عطافرمایا تھا،حضرت والا نے اپنے دور امارت میں اس چمن کو اپنے ہاتھوں سے سینچا اور اس میں رنگ بھرا، جس کی گواہی امارت شرعیہ کے درودیوار آج بھی دیتے ہیں، اگرمسلم پرسنل لابورڈ پر نظرڈالیں گے تو مسلم پرسنل لاکی عظمت اوراس کے وقار کوبڑھایا، بات جب درس وتدریس اور تربیت کی آئے گی تو آپ ایک باکمال مدرس نظرآئیں گے،جنھوں نے کئی سنگ ناتراش کو تراش تراش کر ہیرا بنادیا، اگر آپ کی شاعری سے متعلق بات کریں تو آپ کے اشعار نے صنف شاعری کو نئی جہت اورنئی سمت سے آشناکیا اور ‘‘والشعراء یتبعھم الغاؤن’’سے نکال کر‘‘الاالذین آمنو ا’’ کا مصداق بنایااور بتادیاکہ شاعری فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں اس میدان میں بھی طبع آزمائی کی جاسکتی ہے،شرط یہ ہے کہ فحش اورعریانیت سے اسے پاک رکھاجائے، چنانچہ آپ کے اشعار پڑھنے سے اندازہ ہوگا کہ آپ نے کس نفاست کے ساتھ شاعری کی؛ بلکہ صنف شاعری کی عظمت رفتہ کوبحال کرنے کاکام کیا،آپ نے قطعات بھی لکھے ہیں،غزلیں بھی کہی ہیں اور ترانے بھی لکھے ہیں جس میں جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کا شاندار ترانہ بھی شامل ہے۔ایسی شخصیتیں سالوں نہیں برسوں میں وجود پذیر ہوتی ہیں جن سے گلشن میں بہارآتاہے،میر تقی میر نے کہا تھا۔
مت سہل ہمیں جانو پھر تا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں