حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ اور ندوۃ العلماء

مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی مدظلہ

(ناظم ندوۃ العلماء، لکھنؤ)

حضرت مولانا نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار دورِ آخر کے ان قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی وملی رہنمائی کا فریضہ بڑی دانائی اور حکمت ودور اندیشی کے ساتھ ادا کیا۔ ابتداء سے لے کر اپنی پیرانہ سالی تک پوری زندگی انہوں نے بڑی جفا کشی کے ساتھ گذاری۔ وہ صف ِاول کے قائدین میں سے تھے، لیکن کہیں سے اس کا مظاہرہ نہیں تھا، زہد واخلاص اور درد وایثار ان کی وہ نمایاں صفات ہیں جو اس دور میں عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔
سید نظام الدین صاحبؒ
سید نظام الدین صاحبؒ
مولانا ۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۴۵ھ مطابق ۳۱؍مارچ ۱۹۲۷ء صوبہ بہار میں ’’گیا‘‘ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پیدا ہوئے، انہوں نے علمی خاندان میں آنکھیں کھولیں، مولانا کے جد بزرگوار قاضی شرف الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ سے تھا اور مولانا کے والد مولانا قاضی سید حسین صاحبؒ علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد تھے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں حاصل کی، ثانوی تعلیم کے لیے دربھنگہ کا سفر کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور کئی سال وہاں تعلیم حاصل کی، ۱۹۴۷ء میں تخصص ادب سے فراغت کے بعد بہار کے مختلف دینی مدارس میں تدریس سے وابستہ رہے۔ مولانا کو شروع سے زبان وادب کا ستھرا ذوق حاصل تھا، شاعری سے بھی مناسبت تھی، فرحت گیاوی تخلص تھا، ایسا کم ہوتا ہے کہ فقہ وفتاویٰ میں انہماک کے ساتھ شعر وادب کا ایسا اعلیٰ ذوق ہو، مگر یہ مولانا کا امتیاز تھا۔
فقہ وفتاویٰ سے گہری مناسبت کے ساتھ مولانا میں بڑی انتظامی صلاحیت بھی تھی، یہی وجہ تھی کہ امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر انتخاب مولانا پر پڑی، ۱۹۶۴ء میں بحیثیت ناظم امارت شرعیہ وہ پھلواری منتقل ہوئے اور پھر ساری زندگی وہیں کھپا دی۔ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد صدر بورڈ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے ان کو بورڈ کا جنرل سکریٹری نامزد کیا، وہ نائب امیر شریعت بھی منتخب ہوئے، پھر ۱۹۹۸ء میں امیر شریعت مولانا عبد الرحمن صاحبؒ کی وفات کے بعد مولانا کو امیر شریعت منتخب کیا گیا۔
ندوۃ العلماء سے مولانا کا تعلق خاندانی تھا، مولانا کے دادا بانی ندوۃ العلماء سے استرشاد کا تعلق رکھتے تھے، پھر جب ناظم ندوۃ العلماء اور صدر بورڈ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے مولانا کو بورڈ کا جنرل سکریٹری نامزد کیا، تو اس تعلق میں اضافہ ہوا اور مولانا کی ندوہ آمد ورفت بڑھی، اس دور میں مولانا کو ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی میں لیا گیا اور اس کے چند سالوں کے بعد مجلس نظامت میں بھی شامل کیا گیا، مولانا ندوہ تشریف لاتے، بورڈ کے سلسلہ میں صدر بورڈ سے گفتگو رہتی، کئی کئی روز قیام فرماتے، طلبہ واساتذہ مولانا سے استفادہ کرتے، مختلف مناسبتوں سے مولانا کے خطابات ہوتے۔
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ سے ان کو بڑی عقیدت ومحبت تھی، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ ان کے اس غیر معمولی تعلق کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’وہ حضرت مولاناؒ سے صرف انتظامی تعلق نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ تعلق رکھتے تھے جو ایک مسترشد کا اپنے مرشد کے ساتھ، شاگرد کا اپنے استاد کے ساتھ اور مرید کا اپنے پیر کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہر ملاقات میں دینی استفادہ کو ملحوظ رکھتے تھے اور ان کے رائے ومشورے کو عمل میں لانے کے لیے بڑی مستعدی سے کام لیتے تھے۔‘‘ (یادوں کے چراغ: ۲/۱۵۳)
ان کے اسی مخلصانہ تعلق کا نتیجہ تھا کہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ان پر اعتماد تھا اور ان کی ملی وتنظیمی صلاحیتوں کی بڑی قدرتھی۔ حضرت مولانا رابع صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’مولانا سید نظام الدین صاحبؒ سے حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کو جو مناسبت تھی اور ان کے فہم وبصیرت اور علم وآگہی کی انہیں جو قدر تھی، اس کا اعتراف انہوں نے ان کو ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کا رکن بنا کر کیا اور ان کے امیر شریعت کے انتخاب میں بھی دلچسپی لی۔‘‘ (یادوں کے چراغ: ۲/۱۵۳-۱۵۴)
مولانا نظام الدین صاحب نے حضرت مولاناؒ کی شخصیت کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا، خاص طور سے وہ ان کے بعض ذاتی اوصاف سے بڑے متاثر تھے۔ حضرت مولانا محمد رابع صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’حضرت مولاناؒ سے انہیں جو عقیدت کا تعلق ہوا اس میں دو اہم باتوں کو انہوں نے اپنے بعض احباب سے ذکر کیا، ایک تو یہ کہ ان کی مجلس میں کسی کی غیبت کا گذر نہیں ہے اور ایک بات اور جس نے ان کو متاثر کیا کہ ان کی زندگی میں حیا بہت وسیع مفہوم میں اور مختلف نوعیت سے جلوہ گر تھی اور ایک بڑے جلسہ میں اس وصف کو بھی بیان کیا جو انہوں نے ان کے اندر داعیانہ کردار اور عالمانہ وقار کا بڑی بلندی سے دیکھا تھا۔‘‘ (یادوں کے چراغ: ۲/۱۵۵)
واقعہ یہ ہے کہ مولانا کی زندگی اسلاف کا نمونہ تھی اور اللہ نے انہیں جامعیت عطا کی تھی، وہ حضرت مولاناؒ کے خلیفہ ومجاز بیعت تھے، مگر انہوں نے خود کو ہمیشہ شہرت طلبی سے دور رکھا۔ حضرت مولانا رابع صاحبؒ فرماتے ہیں کہ
’’انہیں حضرت مولانا کے سلسلہ میں خلافت بھی حاصل ہوئی اور بعض طالبین کو ان کے اصرار پر بیعت میں بھی داخل کیا، جب کہ عمومی طور پر اخفاء سے ہی کام لیا اور پوری زندگی میں سادگی وقناعت وتواضع واخلاق واعتدال، توازن، انفرادی واجتماعی بہی خواہی، ہمدردی، تحمل، صبر وبرداشت، شکر کے مواقع پر شکر اور جذبہ احسان مندی کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔‘‘(یادوں کے چراغ: ۲/۱۵۵)
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے بعد حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ ندوہ کے ناظم منتخب ہوئے اور بورڈ کا صدر قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بنایا گیا، مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نے مولانا رابع صاحبؒ سے بھی وہی تعلق قائم رکھا جو ان کو حضرت مولاناؒ سے تھا، پھر جب قاضی صاحبؒ کی وفات کے بعد مولانا رابع صاحبؒ صدر منتخب ہوئے تو اس تعلق میں اضافہ ہوا، طرفین کو ایک دوسرے کا حد درجہ احترام تھا، کوئی مسئلہ ہوتا، مولانا صدر بورڈ سے رجوع فرماتے اور حضرت مولاناؒ کا حال یہ تھا کہ ہر مسئلہ کو جنرل سکریٹری کی طرف محول فرماتے اور ان کی رائے معلوم کرکے ہی اپنی رائے کا اظہار فرماتے، دونوں حضرات کی محبت اور اتفاق مثالی تھا، اس میں دونوں حضرات کی بالغ نظری، بصیرت وتدبر اور حکمت ودانائی کا دخل تھا، دونوں حضرات جذباتیت کو ناپسند کرتے تھے، دونوں ہی حضرات کا خیال یہ تھا کہ فیصلوں میں جلد بازی کبھی غلط نتیجہ تک پہنچا دیتی ہے، اس لیے بہت حزم واحتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، مزاجوں کی اس ہم آہنگی سے عام طور پر آراء میں بھی اتفاق ہوتا تھا۔
مولانا کو ندوہ سے قلبی تعلق تھا، وہ اپنی تمام تر مصروفیات اور اعذار کے باوجود نظامت کے جلسوں میں شرکت کے لیے حاضر ہوتے اور اپنی مفید وقیمتی آراء بھی پیش کرتے تھے، حضرت مولانا محمد رابع صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مولاناؒ کی زندگی میں ہی اور وفات کے بعد میرا اور ان کا باہمی ربط خاص طور پر بڑی اپنائیت کا اور شفقت کا بڑھ گیا تھا اور وہ ایک چاہنے والے بھائی کی طرح پیش آتے تھے، ندوۃ العلماء کے مسائل میں بھی وہ بڑے خیرخواہانہ اور مفید مشوروں سے نوازتے اور تقویت پہنچاتے تھے، اعذار کے باوجود ندوۃ العلماء کی مجلسوں میں شرکت کا اہتمام فرماتے۔‘‘(یادوں کے چراغ: ۲/۱۵۵)
مسلم پرسنل لا بورڈ کے کاموں میں ان سے اپنے مزاج کی یکسانیت کے متعلق مولانا محمد رابع صاحب لکھتے ہیں:
’’بورڈ کے کاموں اور مسائل میں ان کے ساتھ بڑی فکری ہم آہنگی رہی اور جب کبھی کوئی ایسی بات بعض مصلحتوں سے کہنی پڑی، جس میں ان کی رائے مختلف ہوئی، تو بھی عموماً میری رائے کو نظر انداز نہیں کیا، بورڈ کی عاملہ کے آخری جلسہ میں جو لکھنؤ میں منعقد ہوا تھا، وہ اپنی صحت کی خرابی اور اعذار کی وجہ سے دست برداری کی بات کہہ رہے تھے، میں نے ان کو ایسا نہ کرنے کی درخواست کی اور ان کے سکریٹریوں میں ایک اہم سکریٹری حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے مولانا شاہ سید ولی رحمانی کو کارگذار سکریٹری جنرل کے طور پر اضافے کی بات رکھی اور عاملہ نے بھی اس کو قبول کیا اور یہ بڑی اچھی شکل سامنے آئی، مجھے ان سے بڑی اپنائیت معلوم ہوتی تھی اور ان کو جو اپنائیت کا تعلق تھا اس میں حضرت مولانا علی میاںؒ کے رشتے کو بڑا دخل تھا کہ وہ میرے ماموں تھے، مولانا میاںؒ سے ان کو جو ربط وتعلق تھا وہ اس کا اظہار بھی کرتے تھے اور اپنے خاندان کے بزرگوں کا ان کے خاندانی بزرگ حضرت سید احمد شہیدؒ سے تعلق کا ذکر کرتے تھے کہ ان کے اجداد میں بعض حضرات حضرت شہیدؒ کے قافلہ میں شامل تھے اور ان کے جد امجد سید صادق علی جو بذات خود حضرت سید صاحبؒ کے ساتھ سفر ہجرت وجہاد میں نہیں گئے تھے، لیکن ان کو افراد وسامان رسد مہیا کرانے کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مخلصانہ تعلق کی برکات ہمیں بھی عطا فرمائے اور ان کے درجات کو بلند کرے۔ آمین!‘‘ (یادوں کے چراغ: ۲/۱۵۵-۱۵۶)
واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں ہی بزرگوں کو ایک دوسرے کا غیر معمولی احترام تھا، جنہوں نے پوری احتیاط اور حلم وبردباری کے ساتھ بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملت اسلامیہ ہندیہ کو متحد رکھنے کا فریضہ انجام دیا اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی۔ مولانا محمد رابع صاحب ؒ مولانا کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے مسلم پرسنل لابورڈ کو ملک میں جو وقار عطا کیا ہے، اس کی حفاظت کی برابر ضرورت ہے۔‘‘
یہ ندوۃ العلماء سے مولانا کے تعلق ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ سال میں کئی کئی مرتبہ ندوہ تشریف لاتے، سچی بات یہ ہے کہ مولانا فکر ندوہ کے مزاج شناس تھے اور اس کے نصاب ونظام سے بھی انہیں پورا اتفا ق تھا۔ ندوہ کا پہلے دن سے یہ مقصد رہا ہے کہ وہ ہر دور کے چیلنجز اور تقاضوں کو سمجھے اور لوگوں کو ان سے باخبر کرے، یہ وہ فکر ہے جو مولانا کے خطابات ومقالات میں بھی عمومی طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’موجودہ ترقی یافتہ دور میں علماء کا حالات اور وقت کے تقاضے سے باخبر ہونا ضروری ہے۔‘‘(باتیں میر کارواں کی: ۵۳۹)
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’آج کے دور میں طلبہ کے لیے دینی علوم کے ساتھ حسب ضرورت عصری علوم بھی جاننا ضروری ہے، اسی لیے تاریخ، جغرافیہ، سماجیات اور ریاضی کی بھی تعلیم کو بھی اس طرح نصاب میں شامل رکھا جائے کہ اس سے علوم شرعیہ کی تعلیم متاثر نہ ہو۔‘‘(باتیں میر کارواں کی: ۵۳۹
مولانا کے تین صاحبزادے ہیں، جن میں دو تو عصری تعلیم میں فائق ہوئے، البتہ سب سے چھوٹے فرزند محب گرامی مولانا عبد الواحد صاحب نے ندوہ ہی میں تعلیم حاصل کی اور پھر وہ ایک عرصہ تک معہد سکروری سے بھی متعلق رہے۔ بلاشبہ یہ بھی ان کے ندوہ سے تعلق ہی کا نتیجہ تھا۔
اللہ تعالیٰ مولانا کی فکر وخدمات کا بہتر بدلہ عطا فرمائے اور مولانا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آمین!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare