حضرت حسن بصری

فہرست

حضرت حسن بصری

ابو سعید حسن بن بیسار حضرت عمر کی خلافت کے دور میں سنہ 21 ہجری میں پیدا ہوئے ، آپ کے والدین آزاد کردہ غلام تھے ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ کے سایہ شفقت میں آپ پروان چڑھے۔ امہات المومنین کے گھروں میں بچپن میں برابر آتے جاتے رہتے جو بلوغ کے ساتھ رک گیا۔

علامہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ حسن بصری ایک بلند مرتبت عالم ، رفیع منزلت فقیہ ، غلطیوں سے پاک، عابد و زاہد اور وسیع العلم ، فصیح و بلیغ اور حسین و جمیل، غرض جامع کمالات بزرگ تھے۔ ظاہری و باطنی نعمتوں سے مالا مال ایک ایسے مشہور عالم تھے جن کی جلالت شان پر سب کا اتفاق تھا، تعلیمات اسلامی اور اخلاق نبوی کے مجسم نمونوں یعنی صحابہ کرام کی صحبت میں تاثیر ہی ایسی تھی۔ امام شعبی فرمایا کرتے کہ میں نے اس ملک (یعنی عراق) میں حسن سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔ اور قتادہ کہتے حسن کا دامن پکڑو، میں نے رائے میں کسی کو اس شخص سے زیادہ عمر بن الخطاب کے مشابہ نہیں پایا۔ اور کبھی کہتے کہ حسن حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ امام باقر فرماتے کہ حسن کی باتیں انبیاء کے کلام کے مشابہ ہوتی ہیں۔

صحابہ کرام میں حضرات عثمان، علی، ابو موسیٰ اشعری، عبداللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمرو ، انس بن مالک، جابر بن معاویہ ، معقل بن یسار ، ابو بکرہ، عمران بن حصین اور جندب بجلی سے راست استفادہ کیا تھا، اور حضرت عمر بن الخطاب ابی بن کعب سعد بن عباده، عمار بن یاسر، ابوہریرہ، ثوبان ، عثمان بن ابی العاص اور معقل بن سنان سے بالواسطہ ۔ اکابر تابعین کی ایک بڑی جماعت سے بھی مستفید ہوئے۔ چنانچہ روایت بالمعنی کے قائل ہونے کے باوجود شائقین علم کا مرجع بن گئے۔ مکہ مکرمہ تک میں لوگوں کا ہجوم لگ جاتا، آپ کو تخت پر بٹھایا جاتا۔ مجاہد، عطا، اور طاؤس جیسے اکابر تابعین آپ سے احادیث سنتے اور یہ کہتے کہ ہم نے اس شخص کا مثل نہیں دیکھا۔

 تفسیر میں کوئی خاص شہرت حاصل نہیں کی۔ لیکن حدیث ، فقہ اور عربیت میں امام سمجھے گئے۔ ایک مرتبہ مطر الوراق نے ایک فقہی مسئلہ میں آپ کی رائے دریافت کی۔ جواب ملنے پر کہا کہ فقہاء تو اس بابت آپ سے اختلاف کرتے ہیں۔ حسن بصری نے اس پر فرمایا ” … تو نے فقیہ دیکھا بھی ہے ؟ اور جانتا ہے کہ فقیہ کے کہتے ہیں ؟ فقیہ وہ ہے جو زاہد اور متورع ہو ، اپنے سے اونچے مرتبہ والے سے مرعوب نہ ہوتا ہو نہ اپنے سے کم مرتبہ والے کا مذاق اڑاتا ہو، اور اللہ نے اس کو جو علم عطا کیا ہے اس سے قلیل دنیاوی نفع نہ حاصل کرتا ہو ۔ “

حضرت ابو بردہ جو ایک جلیل القدر تابعی تھے فرماتے تھے کہ میں نے کسی غیر صحابی کو حسن سے زیادہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔ امام شعبی جنہوں نے ستر صحابہ کرام کو دیکھا تھا حسن بصری کی بڑی تعظیم کرتے ، ان کے صاحبزادے نے پوچھا کہ جیسا برتاؤ آپ اس شیخ (حسن بصری) کے ساتھ کرتے ہیں ، ایسا کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہیں کرتے ۔ شعبی نے جواب دیا۔ ” بیٹا میں نےرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر اصحاب کو دیکھا ہے اور حسن سے زیادہ کسی کو ان سے مشابہ نہیں پایا۔“

حسن بصری پر ہمیشہ حزن و غم چھائے رہتے ، قلبی سوز و گداز نے لبوں کو ہنسی سے اور قلب کو خوشی سے نا آشنا کر دیا تھا۔ فرماتے تھے کہ مومن کی ہنسی قلب کی غفلت کا نتیجہ ہے ، زیادہ ہننے سے دل مر جاتا ہے ۔ قرآن عظیم کی جب تلاوت کرتے تو شدت تاثر سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔

خشیت النبی کا اس قدر غلبہ تھا کہ ہر آن لرزاں وتر ساں رہتے ، یونس بن عبید کا بیان ہے کہ حسن آتے تو معلوم ہوتا جیسے اپنے کسی قریبی عزیز کو دفن کر کے آرہے ہیں۔ بیٹھتے تو معلوم ہوتا کہ ایک قیدی بیٹھا ہے جس کی گردن مارنے کا حکم دیا جا چکا ہے ۔ جہنم کا ذکر ہو تا تو معلوم ہوتا کہ گویا جہنم صرف انہی کے لیے بنائی گئی ہے ۔ ان کی مجلس میں شاذ و نادر ہی آخرت کے علاوہ کسی شئے کا ذکر ہوتا۔ ایک بار شیعی اجازت لے کر چند لوگوں کے ہمراہ ان کے گھر گئے تو ان کو تنہا قبلہ رو خود کلامی کرتا پایا۔ ایک عجیب عالم میں کہہ رہے تھے ” ابن آدم تو نیست (معدوم) تھا، ہست (موجود ) کیا گیا، تو نے مانگا، تجھے دیا گیا، مگر جب تیری باری آئی اور تجھ سے مانگا گیا تو تو نے انکار کر دیا، ہائے افسوس تو نے کیسا برا کام کیا یہ کہتے اور بے ہوش ہو جاتے ، ہوش آتا، پھر وہی کلمات دہراتے اور پھر بے ہوش ہو جاتے۔

اخلاص کے بغیر صوف پوشی اور حلقہ نشینی کو فریب نفس تصور کرتے ۔ ایک مرتبہ آپ کے سامنے گلیم پوشوں کا تذکرہ کیا گیا، فرمایا۔ ” یہ لوگ دل کی گہرائی میں تکبر کے بت چھپائے ہیں اور ظاہری لباس سے تواضع و خاکساری ظاہر کرتے ہیں۔ بخدا یہ اپنی گلیم گدائی میں بیش قیمت رداء پوشوں سے زیادہ متکبر ہیں۔ “ ایک بار یمنی جبہ اور رداء (چادر) اوڑھ کر نکلے ، ایک ساتھی نے اعتراض کیا تو جواب دیا۔ ”تم یہ معلوم نہیں کہ دوزخیوں کا بڑا حصہ حلیم پوشوں میں سے ہو گا “۔ آپ خوش لباس اور جامہ زیب تھے ، یمن کی رداء اور پھول دار چادر زیب بدن ہوتے، جبہ ، چادر اور عمامہ کا اتنا اہتمام تھا کہ بغیر عمامہ کے گھر سے نہ نکلتے۔

فریب نفس سے اتنے خائف تھے کہ اٹھتے بیٹھتے دعا فرماتے۔ “اے اللہ اشرک، تکبر ، نفاق، ریاء، فریب دہی، شہرت طلبی اور اپنے دین میں شک و شبہ سے ہمارے قلوب کو محفوظ رکھ ، اے مقلب القلوب ! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ اور اسلام کے سیدھے راستے کو ہمارا دین بنا۔“

جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ دل میں موجزن تھا، کابل ، اند قان اور ازبکستان کی مہمات میں آپ کی شرکت کی صراحت ملتی ہے، شہرت سے نفور نے ممکن ہے تذکرہ نگاروں کو دیگر مہمات میں شرکت سے بے خبر رکھا ہو۔

حکام کے ظلم کا جواب صبر سے دینے کی تلقین کرتے ، خروج کے خلاف تھے ، مگر حکام کے روبرو اظہار حق میں کوئی تذبذب نہ کرتے۔

جوانی میں جواہر و موتیوں کی تجارت کرتے تھے۔ تجارتی سفر میں ایک مرتبہ روم گے گئے ۔ وزیر کے ایما پر اس کے ساتھ ایک جنگل میں گئے۔ دیکھا کہ دیبائے رومی کا ایک خیمہ استادہ ہے جس کی طنابیں ریشم کی اور میخیں سونے کی ہیں۔ ایک بڑی فوج اور امراء کو دیکھا، حکماء، دبیروں اور منشیوں کو دیکھا، خوبصورت کنیزوں کو زر و جواہر کی کشتیاں لیے دیکھا۔ یہ سب خیمہ کے گرد پھرے، کچھ کہا اور رخصت ہوئے پھر کے اندر گئے ، باہر نکلے اور رخصت ہو گئے۔ تجسس جاگا تو وزیر سے پوچھ قیصر روم کا چہیتا ایک ابیمار ہوا، اطباء ، اہل دانش، اہل حکمت سے علاج کرایا گیا، دولت حکومت کی مد دلی گئی، غرض جو جو تدبیریں کی جو جو تدبیریں کی جاسکتی تھیں کی قیصر روم اور اس کا وزیر خیمہ . خوش جمال لڑکا بیہ پوچھ بیٹھے ، ،، پتہ چلا کہ گئیں لیکن سب بے کار ثابت ہوئیں اور اور شہزادہ چل بسا، اس واقعہ نے حسن پر ایسا اثر کیا کہ تجارت دنیا چھوڑ کر تجارت آخرت میں لگ گئے۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یہ بھی پڑھیں