حضرت جنید بغدادی (متوفی 297ھ)
ابو القاسم جنید بن محمد قواریری بغدادی کی پیدائش بعض محققین کے نزدیک نہاوند میں اور بعض کے نزدیک عراق میں ہوئی۔
آپ کے والد کانچ کا کاروبار کرتے تھے اسی لیے قواریری کہلائے جانے لگے ۔ جنید بغدادی کے بچپن ہی میں آپ کے والد بغداد منتقل ہو گئےاور وہاں بھی وہی کاروبار جاری رکھا۔ جنید بغدادی کی تعلیم و تربیت ان کے خالو یا ماموں سری سقطی کی نگرانی میں ہوئی جنھوں نے باتوں باتوں میں جنید بغدادی کے دل پر حسن اخلاق کی اہمیت نقش کر دی۔ سات (7) برس کی عمر ہی سے جنید بغدادی کی زبان سے ایسے کلمات جاری ہونے لگے جن سے حکمت کی کرنیں پھوٹتیں۔ مثلاً ایک مرتبہ جنید بغدادی سے سری سقطی نے شکر کی بابت سوال کیا آپ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اس طرح فائدہ اٹھانا کہ کسی معصیت (گناہ) میں ان سے مدد نہ لی جائے۔ سری سقطی کو یہ جواب سن کر تعجب ہوا اور انہوں نے آپ سے پوچھا کہ یہ باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوئیں ؟ جنید بغدادی نے عرض کیا۔ ” جناب کی صحبت سے “۔
جنید بغدادی نے مسائل فقہ کے علم کے حصول کے لیے امام ابو ثور کے حلقہ کا رخ کیا اور اتنی یکسوئی سے علم حاصل کیا کہ میں سال کی عمر میں امام ابو ثور کی موجودگی میں فتوے دینے لگے ۔ جنید بغدادی کے ایک ساتھی ابو حفص حداد کہا کرتے کہ اگر عقل انسانی پیکر اختیار کرے تو وہ جنید ہی کا پیکر ہو گا یعنی جنید ” مجسم عقل “ تھے۔ سری سقطی کے علاوہ جنید بغدادی نے حارث محاسبی اور محمد بن علی قصاب کی صحبتوں سے بھی بڑا فیض اٹھایا ایک بار خود فرمایا کہ میں نے دو سو (200) مشائخ کی خدمت کی ہے جو عجیب صاحبان قدرت تھے۔
ایک مرتبہ سری سقطی سے لوگوں نے پوچھا کہ کیا کوئی مرید اپنے پیر سے بلند تر مقام حاصل کر سکتا ہے ؟ تو سری سقطی نے جواب دیا کیوں نہیں؟ جنید بغدادی کو دیکھ لو! جنید بغدادی کا مقام مجھ سے بلند تر ہے۔ “ اس جواب کے پیچھے سری سقطی کی تواضع و انکساری بھی تھی اور جنید بغدادی میں پوشیدہ کمالات کی نشاندہی بھی۔ علی ہجویری نے نقل کیا ہے کہ جنید بغدادی با وجود لوگوں کے اصرار کے اپنے شیخ کی موجودگی میں مجلس وعظ میں خطاب سے عذر فرماتے۔ ایک رات جنید بغدادی نے خواب میں رسول اکرم کو دیکھا کہ آپ نے جنید بغدادی کو لوگوں سے خطاب شروع کرنے کا حکم فرمایا۔ جب بیدار ہوئے تو وسوسہ آیا کہ میرا اورجہ میرے شیخ کے درجہ کے برابر ہو گیا تبھی رسول اکرم نے مجھے دعوت و و تبلیغ کا حکم فرمایا۔ فجر کی نماز کے فوری بعد سری سقطی کا قاصد پہنچا کہ تم نے مریدین کی خواہش مشائخ بغداد کی سفارش بلکہ میرا پیغام بھی رد کر دیا اب جب کہ نبی اکرم نے حکم دے دیا ہے تو حکم بجالاؤ۔ جنید بغدادی کہتے ہیں کہ اس وقت میں نے جانا کہ شیخ میرے ظاہری و باطنی حالات سے باخبر ہیں۔ میں شیخ سری سقطی کی مجلس میں پہنچا اور میں نے دریافت کیا کہ ان کو میرے خواب کے بارے میں کیسے پتہ چلا ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے خواب میں رب العزت کو دیکھا جس نے مجھ سے فرمایا کہ اس نے نبی اکرم کو جنید بغدادی کےپاس بھیجا ہے کہ وہ جنید بغدادی کو وعظ و تبلیغ کا حکم کریں۔
جنید بغدادی کے دل میں ایک بار ابلیس کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مسجد کے دروازہ کے باہر کھڑے تھے کہ کچھ فاصلہ پر بھیانک شکل کا ایک بوڑھا نظر آیا۔ بوڑھا قریب آیا تو جنید بغدادی اس سے پوچھ بیٹھے کہ تو کون ہے ؟ تیری مہیب شکل سے مجھے وحشت ہو رہی ہے۔ بوڑھے نے کہا کہ میں وہی ابلیس ہوں جسے دیکھنے کی تو نے تمنا کی تھی۔ جنید بغدادی نے اس سے پوچھا کہ حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے باز رکھا؟ ابلیس نے جواب میں پوچھا کہ بھلا میں غیر اللہ کو کیسے سجدہ کر لیتا؟ جنید بغدادی ہکا بکارہ گئے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اتنے میں غیب سے ایک ندا سنی کہ اس سے کہو کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ اگر تو اللہ کا فرماں بردار بندہ ہو تا تو بغیر کسی تامل کے اس کا حکم بجالا تا انکار نہ کرتا اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے دوری اختیار کرتا یہ ندا ابلیس نے بھی سنی اور چیخ مار کہنے لگا۔ ”واللہ تو نے مجھے جلا دیا۔ “ اور غائب ہو گیا۔
جنید بغدادی نے شہر بغداد میں رہتے ہوئے چالیس سال مجاہدہ کیا جس میں تیس (30) سال ایسے گذرے کہ عشاء کی نماز کے بعد خلوت میں تقریباً صبح کا ذب تک کھڑے کھڑے اللہ کا ذکر کرتے رہتے اور اس وضو سے فجر کی نماز باجماعت ادا کرتے۔ ذکر اللہ کی م مشغولی قیام کی تھکان کا احساس نہ ہونے دیتی۔ ایک بار فرمایا کہ ہم نے تصوف قیل و قال سے نہیں بلکہ فاقہ کشی بے خوابی ترک دنیا اور ترک مرغوب سے حاصل کیا ہے۔ یہاں فاقہ کشی سے روزہ اور بے خوابی سے نماز شب مراد ہیں۔ فرماتے کہ تصوف میں ایسا شخص چاہیے جو کتاب اللہ کو دائیں ہاتھ میں اور سنت مصطفوی کو بائیں ہاتھ میں تھام کر دو شمعوں کی روشنی میں راستہ طے کرتا رہے کہ شبہات کے گڑھوں اور بدعات کی تاریکیوں سے بچ سکے۔
فرماتے کہ اگر اس آسمان کے نیچے کوئی علم علم تصوف سے بڑھ کر ہوتا تو میں اس کی اور اس کے جاننے والوں کی طرف دوڑتا ہوا جاتا اور سیکھ لیتا اور اگر کوئی وقت صوفیہ کے اوقات (گذاری) سے بہتر ہوتا تو میں اس کو حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتا۔ اور فرماتے کہ میں نے کوئی گروہ علماء کا ایسا نہیں دیکھا جو گروہ صوفیہ سے زیادہ فضیلت رکھتا ہو ورنہ میں ہر گز صوفی علماء کی صحبت اختیار نہ کرتا۔ فرماتے کہ یہ بڑی خست و کمینگی ہے کہ کوئی شخص دین کو حصول طعام کا ذریعہ بنالے۔
اپنے مریدین سے فرمایا کرتے کہ اگر میں جانتا کہ دور کعت نفل کی ادائیگی میرے لیے تمہارے ساتھ بیٹھنے سے افضل ہے تو میں تمہارے پاس نہ بیٹھتا۔
جعفر خلدی کہتے ہیں کہ ایک شخص جنید علیہ الرحمہ کے پاس آیا اور ان سے کہا۔ ” میں اپنی تمام ملکیت چھوڑ کر فقر اختیار کرنا اور فقراء کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں۔ جنید بغدادی نے جواب میں فرمایا ” نہیں ! تمام ملکیت مت چھوڑو بلکہ اس قدر باقی رکھو کہ تمہاری ضرورتیں پوری ہو سکیں اور طلب حلال کے لیے جد وجہد کرتے رہو اس طرح یہ خدشہ نہیں رہے گا کہ نفس اپنا حق مانگے ( اور حق ادا نہ ہو ) رسول اللہ کی یہ عادت تھی کہ جس کسی کام کا ارادہ کر لیتے تو اس پر ثابت قدم رہتے“۔
جنید بغدادی سے سوال کیا گیا کہ حکایات سے مریدین کو کیا فائدہ ہوتا ہے ؟ آپ نے کہا کہ حکایات اللہ کے لشکروں میں سے ایک 181لشکر ہیں جو دلوں کے لیے باعث تقویت ہیں۔ پوچھا گیا کہ کیا اس کی کوئی دلیل بھی ہے ؟ تو کہاہاں اور قرآنی آیت پڑھی۔ ”نحن نقص (الخ)
(ترجمہ : اور سب کچھ جو ہم تمہیں رسولوں کے واقعات سناتے ہیں ان کی غرض تمہاری ثبات قلبی ہے۔) فرماتے کہ سلامتی اس کی دوست ہوتی ہے جو اس کا طلب گار ہو صوفی مخالفت کو ترک کرتا اور جس چیز کا علم حاصل کرنے سے شریعت رو کے اس سے خود کو روک لیتا ہے۔
فرماتے کہ سماع کے لیے تین شرائط ضروری ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو سماع اختیار نہیں کرنا چاہیے پوچھا گیا کہ وہ شرائط کیا ہیں؟ فرمایا:
- زمان
- مکان اور
- (ہم مشرب ) اخوان
فرماتے کہ جن چیزوں سے تمہارے ہاتھ خالی ہوں ان سے دل کے خالی ہونے کا نام زہر ہے۔ فرماتے کہ ہر سانس کے ساتھ سزا کا اندیشہ رکھنا خوف ہے مجھے خوف بستگی میں لاتا ہے اور رجا(امید) کشادگی دیتی ہے۔
فرماتے کہ علام الغیوب کے سامنے دلوں کو ذلیل رکھنا خشوع ہے اور آیت پڑھتے ۔ ” عباد الرحمن “الخ (ترجمہ: رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی اور عاجزی سے چلتے ہیں) فرماتے کہ عبودیت دو خصلتوں سے عبارت ہے (1): ظاہر و باطن میں حق تعالیٰ کے ساتھ صدق اختیار کرنا (2) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ( ظاہر او باطنا) مکمل پیروی کرنا۔
فرماتے کہ صدیق ایک روز میں چالیس (40) بار انقلاب احوال سے گذرتا ہے اور ریا کار چالیس (40) برس تک ایک ہی حال میں رہتا ہے۔
فرماتے کہ میں خوش خلق فاسق کی صحبت کو بد خلق عابد کی صحبت سے بہتر سمجھتا ہوں۔ فرماتے کہ تو بہ کے تین مراحل ہیں (1) شرمندگی (2) ترک گناہ کا پختہ ارادہ (3) ظلم و خصومت سے پاکی۔
آپ سے پوچھا گیا کہ توحید کیا ہے ؟ فرمایا کہ بندے کی صفت عجز و انکساری اور خواری و فروتنی ہے۔ حق تعالیٰ کی صفت غلبہ مطلقہ بزرگی مطلق اور قدرت مطلقہ ہے۔ صفات بندگی (کے شعور) کو صفات حق تعالی ( کی یکتائی کے استحضار) میں فنا کر دینا توحید ہے۔
آپ فرماتے کہ حجاب تین ہیں (1) نفس (2) خلق (3) دنیا۔
آپ سے ان کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ تو عام لوگوں کی نسبت تذکرہ کرتا ہوں۔ خواص کے لیے دیگر تین حجاب ہیں (1): عبادت پر نظر رکھنا (2) ثواب کے حصول کا قصد کرنا (3) کرامت کا دیکھنا۔
فرماتے کہ اگر ہزار برس تک جیتار ہوں اعمال میں ذرہ برابر کمی نہ کروں الا یہ کہ وہ (یعنی حق تعالی ) خود مجھے باز رکھے۔
جنید بغدادی سکر ( مد ہوشی) کو محل آفت سمجھتے کیوں کہ سکر میں احوال پر اگندہ ہوش مفقود اور علایق گم ہوتے ہیں جب کہ صحو(ہوش) مشاہدہ حق اور مقام عبدیت اور اس کے تقاضوں کی ادائیگی میں سر گردانی سے عبارت ہے۔
جنید سے تفکر کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا ایک تفکر اللہ کی آیات میں ہے جس سے معرفت حاصل ہوتی ہے۔ ایک تفکر حق تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات پر ہے اس سے محبت پیدا ہوتی ہے ایک تفکر حق تعالیٰ کے وعدوں میں ہے اس سے ہیبت پیدا ہوتی ہے۔ اور ایک تفکر نفس کی صفات اور نفس پر حق تعالیٰ کے احسانات پر ہے اس سے حیا (شرم) پیدا ہوتی ہے:
حریری کہتے ہیں کہ میں نے جنید کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا فرمایا کہ رحمت کی اور بخش دیا کوئی چیز کام نہ آئی سوائے ان دور کعت نماز کے جو آدھی رات کو پڑھتا تھا۔