حضرات محدثین کرام کے دو اہم کام
پہلا کام : وضاعین وکذابین کے متعلق صاف گوئی
پہلا کام تو حضرات محدثین نے یہ کیا کہ واضعین حدیث اور کذابین کے خلاف کھل کر دو ٹوک عمل وضع کذب کی شناعت و قباحت کو بیان کیا اور ان کے متعلق فتوی دینے میں ایسا سخت موقف اختیار کیا کہ گویا ان کے نزدیک حدیث وضع کرنے والا اسی سلوک کا مستحق ہے جو سلوک مرتد اور مفسد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
چناں چہ ابو العباس سراج کہتے ہیں کہ میں محمد بن اسماعیل بخاری کے پاس حاضر ہوا اور ان کو ابن کرام کا ایک مکتوب دیا جس میں چند احادیث کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، ان میں زہری سالم اور سالم کے والد کی سند سے یہ روایت بھی تھی: ” الإيمان لا يزيد و لا ينقص یعنی ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ہے ( جو در حقیقت موضوع روایت ہے ) تو امام بخاری نے خط کی پشت پر لکھا: من حدث بهذا استوجب به الضرب الشديد والحبس الطويل – جس نے یہ حدیث بیان کی ہے وہ سخت سزا اور طویل قید کا مستحق ہے۔ وضع حدیث کا مرتکب ، اکبر کبائر کا مرتکب گردانا گیا ہے، اور ابو محمد الجوینی نے اس کی تکفیر کی ہے۔ اسی طرح ائمہ مالکیہ میں ناصر الدین ابن المنیر نے بھی اس کی تکفیر کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ابو داؤد کے حوالے سے لکھا ہے کہ یحیی بن معین نے سوید الانباری کے بارے میں کہا ہے وہ حلال الدم “ ہے۔
حاکم کہتے ہیں کہ سوید کی یہ روایت : من عشق وعف وكتم و مات مات شهیدا جس نے عشق کیا اور پاک دامن رہا اور اپنے عشق کو چھپایا اور اسی حالت میں مر گیا تو اس کی موت شہادت ہے، جب یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا “لو كان لي فرس ورمح غزوت سویدا (اگر میرے پاس گھوڑا اور نیزہ ہوتا تو میں سوید سے جنگ کرتا۔)
ابن عتیبہ نے معلی کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ابن نجیح سے فلاں (موضوع) روایت بیان کرتا ہے تو اس کی گردن مار دینے کی ضرورت ہے، ایسے مجرموں کی گواہی مردود اور اس کی ثقاہت مجروح ہے، وہ اگر توبہ بھی کر لے تب بھی اہل علم کے نزدیک وہ نا قابل اعتبار ہے، اس کی کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی ، امام احمد بن حنبل سے ایک راوی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک جھوٹی حدیث بیان کی پھر توبہ کر لی تو انہوں نے جواب دیا، اس کی توبہ اللہ اور اس کے درمیان ، مگر اس سے حدیث کبھی نہیں روایت کی جائے گی۔
دوسرا کام : علوم الحدیث کی فنی تدوین
اور دوسرا اہم کام ان حضرات نے یہ کیا کہ حدیث سے متعلق بہت سے علوم مدون کئے اور انہوں نے فن حدیث کو مہذب و منقح کیا ، روات کی تحقیق و تنقید کی، ضعیف روات کو ثقات سے متمیز کیا ، احادیث کی علل خفیہ پر متنبہ کیا، اس طرح علم حدیث کی بہت سی انواع ہو گئیں۔
حاکم ابو عبد اللہ نیشا پوری ۴۰۵ ھ نے ایک کتاب علوم الحدیث” تالیف کی اس میں پچاس انواع کو بیان کیا، پھر حافظ ابن الصلاح ۶۴۴،ھ ۶۴۳ ھ نے مقدمہ میں اور علامہ نووی نے تقریب میں ۶۵ انواع کا ذکر کیا، اور علامہ سیوطی نے اضافہ کر کے تدريب“ میں ۹۳ انواع پیش کی ہیں، اور علامہ حازمی نے تو کتاب العجالة میں فرمایا کہ: “علم الحديث يشتمل على أنواع كثيرة تبلغ مأة كل نوع منها نوع مستقل۔ ( یعنی علم حدیث کثیر انواع پر مشتمل ہے جن کی تعداد سو تک پہنچ رہی ہے اور ہر نوع اس کی ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے)۔