تصوف کے معنی و مفہوم
لفظ ” تصوف کے اشتقاق کے بارے میں محققین کے درمیان کافی اختلاف رہا ہے، کیونکہ تصوف کا لفظ نہ قرآن میں موجود ہے اور نہ ہی صحاح ستہ میں آیا ہے ۔ قبل اسلام کی عربی کی قاموس اور عربی ادب بھی میں بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ اگر چہ فی زمانہ تحفظ صوف پر اکثر علماء کا ایک قسم کا اتفاق نظر آتا ہے ، لیکن علما اسلام اس کے کسی ایک اشتقاق و معنی پر متفق نہیں ہیں۔
تصوف کا لغوی معنی
تصوف کی لغوی تحقیق میں علمائے اسلام کو ہمیشہ اختلاف رہا۔ عام طور پر صوفی لفظ کو کو صوف (پشمینہ ) سے مشتق قرار دیا جا تار بہ جس کا اصل مادہ “صوف ،، ہے ، جس کا معنی ہے ” اون ۔ اور تصوف کا لغوی معنی ہے ” اون کا لباس پہنا، جیسے تشخص کا معنی ہے قمیص پہنا ۔ عربی لغت کے لحاظ سے تصوف کے معنی ہیں اس نے لباس صوف پینا۔ اور ابن خلدون کے مطابق ابتدا میں صوفیا کو ان کی صوف پوشی کی وجہ سے صوفی کہنے لگے۔ امام علی ہجویری صاحب کشف المحجوب میں لکھتے ہیں: الصفا من الله تعالى انعام واکرام والصوف لباس الانعام ۔ چونکہ صوفیہ نے جلیل القدر انبیاء ورسل مثلاً حضرت موسیٰ ، حضرت بیچی ، حضرت عیسی علیہم السلام کے نام لباس اور حضرت محمد مصطفی صلی پیرینیم کے لباس بوقت وصال کو اپنایا ، شہرت سے گریز اور سادہ زندگی اختیار کی ، اس لیے وہ صوفی کہلائے۔ بعض علما کی کی رائے میں صوفی لفظ صنف سے مشتق ہے۔ یعنی صوفیہ اول صف میں نظر آتے ہیں، یعنی عبادات شاقہ ، اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ میں سب سے آگے آگے رہیں تاکہ اللہ کے نزدیک ان کا شمار متر بین و صالحین کی صف اول میں ہو۔ لیکن معنی کے اعتبار سےصف سے صفی لفظ بنتا ہے صوفی نہیں۔
اسی طرح بعض علما نے صوفی کو اصحاب صفہ (مسجد نبوی کے چبوترے صفہ ) کی طرف نسبت دی ہے۔ اس کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ عہد نبی صلی علیم میں تقریباً ستر صحابہ نے دنیوی تعلقات کو ترک کر دیا تھا۔ جو عہد رسالت میں مستقل ذرائع معاش کے نہ ہونے کے باعث مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی کے شمالی جانب کے پیش دالان میں رہتے تھے ، تلاوت قرآن مجید ، ذکر اللہ اور عبادات کے ذریعہ اللہ کی خوشنودی و توجہ کی امید رکھتے ، رسول اللہ صلی ٹیم سے علم کی تحصیل میں مصروف رہتے اور نو مسلموں کو مبادی اسلام اور فرائض دین و ممنوعات شرعیہ کیا بابت تعلیم دیتے ، ان کی زندگی تو کل علی اللہ کی مظہر تھی۔
صوفیہ بنوصوفہ کی طرف منسوب ہیں جو ایک ایسا بدوی قبیلہ تھا جس نے حرم کعبہ اور زائرین کی خدمت میں شہرت حاصل کی تھی۔ علامہ لطفی نے اپنی کتاب ” تاریخ فلاسفہ الاسلام میں اپنی تحقیق میں بیان کیا ہے کہ صوفی کا لفظ مشیو صوفیاء سے مشتق ہے جو ایک یونانی کلمہ ہے اور جس کے معنی حکمت الہی کے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ صوفی وہ حکیم جو حکمت الہی کا طالب ہوتا ہے اور اس کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں۔ البیرونی کے بموجب لفظ “سوفوس،، اور لفظ سیوسوفیا کا حرف «س»، تعریب کے بعد حرف «ص»، سے بدل گیا۔ بعض عالم کے مطابق یہ مادو صوف سے باب تفعل کا مصدر ہے، اوراس کے معنی عاد اونی لباس پہن لینے اور دنیاوی نام ونمود بیش و عشرت اور نفسانی لذات سے کنارہ کشی کر کے متصوفانہ زندگی کے لیے خود کو وقف کر دینے کے ہیں۔
تصوف کے اصطلاحی معنی
اصطلاحی اعتبار سے صوفیا یا تصوف صرف صوف پوشی کے ساتھ ہی مختص نہیں ہیں نہ ہی اہل معرفت کو اس معنی تک محدود کرنا چاہیے۔ اس اعتبار سے صوفیا کی اصطلاح میں تصوف کے معنی ہیں: اپنے اندر کا تزکیہ اورتصفیہ کرنا یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رذائل اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائل اخلاق سے مزین کرنا۔ اور صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے ہیں۔
امام قشیری کے مطابق لفظ صوفی 200ء کے کچھ پہلے مشہور ہوا۔رسول اللہ اسلام کی رحلت کے بعد جس لقب سے اس زمانے کے افاضل یاد کیے جاتے تھے وہ صحابہ تھا۔ انہیں کسی دوسرے لقب کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ صحابیت سے بہتر کوئی فضیلت نہ تھی جن بزرگوں نے صحابی کی صحبت اختیار انہیں تابعین کالقب ملا اور تابعین کے متبعین تبع تابعین کے قابل فخر لقب سے سرفراز تھے۔ اس کے بعد زمانے کا رنگ بدلا اور لوگوں کے احوال و مراتب میں نمایاں فرق پیدا ہونے لگا کچھ لوگوں کو زہاد اور عباد کے ناموں سے پکارا گیا۔ جب بدعات کا ظہور ہوا تو اہل سنت نے جن کے دل خشیت الہی سے معمور تھے اور اللہ کی یاد سے سرشار تھے انہوں نے اپنے زمانے سے علاحدگی اختیار کرلی اور ان کو ہی صوفیا کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
تصوف کی اصل
تعلیمات تصوف پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تصوف میں دو باتیں اصل کی حیثیت رکھتی ہیں : تزکیہ نفس اور احسان تزکیہ نفس کا ذکر قرآن کریم میں بعثت نبوی کے مقاصد میں بار بار آیا ہے ور احسان کا ذکر حدیث پاک میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث جبریل کو تصوف کی اصل سمجھا جاتا ہے جس میں احسان کی تعریف کی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ارشاد فرمایا کرتے: مجھ سے دین کی باتیں پوچھا کرو۔ مگر بارگاہ نبوی ے ادب اور اور غلبہ ہیبت کی وجہ سے صحابہ کرام کو سوالات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ لہذا حقائق دینیہ سکھانے کے لیے اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا جبریل کو انسان شکل میں بھجاتا کہ وہ سوال کریں اور معلم کائنات جواب دیں اور صحابہ کرام کو علم حاصل ہو جائے۔
ایک موقع پر لا الہ الا صحابہ کرام کے ساتھ مجد نبوی میں تشریف فرماتے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا اس کے بال انتہائی سیاہ اور کپڑے انتہائی سفید تھے ، اس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور نہ ہی صحابہ کرام میں سے کوئی اس سے واقف تھا۔ بہر حال وہ شخص بڑھا چلا گی اور سو اللہ اللہ کے عین سامنےجاکر بیٹھ گیا آپ کے گھٹوں سے پے گئے ملادیے اور آپ کے زانوں پر اپنے دونوں اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ اس شخص نے آپ سے کچھ سوالات کیے جن کے آپ نے جوابات۔ دیے جب وہ شخص روانہ ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے عمر! تمہیں معلوم ہے کہ یہ شخص کون تھا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: ” یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے“۔
حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اکرم منی لام سے پہلا سوال کیا : ” يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ ! اے محمد ملا مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے۔ آپ صلی امام نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس (اللہ ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔ آپ نے جواب دیا تو جبریل نے تصدیق و توثیق کرتے ہوئے کہا: ” صدق “ آپ کی ٹیم نے سچ فرمایا۔ انہوں نے دوسراسوال کیا: ” فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيْمَانِ ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اسلام یہ ہے کہ تنہا اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو اور فرض زکوۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! احسان کیا ہے آپ ملی ایم نے اس کا جواب دیا تو انہوں نے کہا: صدقت ” آپ نے سچ فرمایا۔ جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی الم سے تیسرا سوال کیا: ” فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ ! مجھے احسان کے بارے میں بتائے ۔ آپ نے فرمایا: ” أَنْ تَعْبُدَ الله كَأَنَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ “تمہارا اس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرنا گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ( یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ احسان کے جواب میں آپ صلی ا ہم اصلاح باطن کے حوالے سے جو ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو اور اگر اس مقام کو نہ پاسکو تو یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالی تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ یہی تصوف کی اصل ہے۔ بندہ کے دل میں اس احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیا کی زبان میں دوسرا نام تصوف “ یا ”سلوک “ ہے۔ ”تصوف ” در اصل بندہ کے دل میں یقین اور اخلاص پیدا کرتا ہے ۔ حضرت حارثہ یقین و معرفت کے جس مرتبے پر فائز تھے اس کا نام علم حال یعنی تصوف ہے۔
تصوف کی تعریفات
تصوف کے متعلق بزرگانِ دین سے بے شمار اقوال منقول ہیں، کیوں کہ ہر ایک نے اپنے مقام و مرتبہ اور حال کے اعتبار سےتصوف کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ امام ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن قشیری (متوفی 465ھ) رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں کہ حضرت رویم بن احمد سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو اپنے رب کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جو چاہے اس سے کام لے اور جنید بغدادی سے تصوف کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سواکسی سےبھی کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔
حضرت ابو الحسن قناد ہے جب صوفی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ کے حق کی ادائیگی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتا ہے۔ شیخ ابو نصر سراج طوسی مزید ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ صوفی وہ لوگ ہیں جو اللہ عز و جل کو خوب پہچانتے ہیں ، اس کے احکام کا علم رکھتے ہیں، جو کچھ اللہ تعالی کے علم میں ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں، اللہ تعالی ان سے جو کام لینا چاہتا ہے یہ اس کو پورا کرنے کے لیے ثابت قدمی دکھاتے ہیں، پختہ عمل کی بدولت وہ اللہ تعالی سے کچھ پالیتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے اس کی وجہ سے فنا ہو جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ہر پالینے والا آخر کار فنا ہو جایا کرتا ہے۔