تصوف کی تاریخ : چوتھا دور

فہرست

تصوف کی تاریخ : چوتھا دور

بارہویں صدی کی ابتداہی میں تصوف کے چوتھے دور کا آغاز ابو سعید بن ابی الخیر اور ابوالحسن علی الخرقانی کے ظہور سے ہوا جب اہل دین کے عوام ظواہر احکام شریعت پر قائم رہے ، خواص نے تزکیہ و تہذیب نفس، تصفیہ قلب و روح، فضائل اخلاق میں رسوخ اور احوال میں ترقی کے ذریعہ اللہ سبحانہ کے تقرب و خوشنودی کے حصول کو نصب العین بنایا۔ اور خواص الخواص نے اعمال و احوال اور مقامات سلوک سے گزر کر ” جذب “ تک رسائی حاصل کر لی جس نے ان کے سامنے توجہ “ یعنی حقیقت احسان کا راستہ کھول دیا۔ اور انہوں نے بذات خود مشاہدہ کر لیا کہ در حقیقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی ذات فعال لما یرید ( جو چاہے وہ کرنے والی ذات) اور قیوم حقیقی ہے ، وہی غنی ہے اور باقی سب وجود کے ہر مرحلہ پر ہر صفت میں اس کے محتاج ہیں۔ یہ ابو علی روز باری ، قشیری، غزالی، ہجویری، کلاباذی اور ابو طالب مکی کے معاصر تھے لیکن ان کا طریقہ ان سب سے جدا گانہ اور ان کا طرز حیات و فکر و عمل ان سب سے سے مختلف تھا۔ بہر حال شہاب الدین سہر وردی ابو علی روز باری، قشیری، کلا بازی، ابو طالب مکی، غزالی، عبد القادر جیلانی وغیرہ کی تصوف سے وا سے وابستگی نے مذبذب علماء کے دل میں تصوف کی طرف ایک مثبت تاثر قائم کر دیا۔ ان کی مجالس کی شرکت نے ان کی تالیفات کے مشکل و مہم مقامات کو صاف اور مبرہن کر دیا، اشکالات دور کر دیے اور وہ تاثیر پیدا کر دی جس نے ان کی زندگی میں ایک انقلاب کی راہ کھول دی۔ وہی قرآن ، وہی حدیث لیکن معانی و مفاہیم کی بارش نئی جس کے قطرہ قطرہ نے یا تو ان کی روح کی پیاس بجھائی یا اللہ عزیز کے خوف و خشیت کے ساتھ اس کی محبت کے جذبات قوی سے قوی تر کر دیے، یا ان کی چشم باطن ایسے کھول دی کہ علمی اشکالات ہوا ہو گئے ، یا شوق شہرت فنا ہو گیا، یا علماء دین مجسم دین بن گئے ، چنانچہ اس دور سے اہل تفسیر ، اہل حدیث اور اہل فقہ میں ایک معتدبہ تعداد ہمیں صوفیہ سے منسلک ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یہ بھی پڑھیں