ایک یتیم بچے کا درد بھرا قصہ

فہرست

ایک یتیم بچے کا درد بھرا قصہ

وہ خوش نصیب صحابی جن کی قبر میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور فرمایا : اے اللہ ! میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔

ایک یتیم بچہ تھا، اس کا نام عبداللہ تھا۔ چچا نے پرورش کی تھی، جب جوان ہوئے تو چچا نے اونٹ بکریاں غلام دے کر ان کی حیثیت درست کر دی تھی۔ عبداللہ نے اسلام کے متعلق کچھ سنا اور دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار اسلام نہ کر سکا۔ جب نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے واپس گئے تو عبدالله نے چچا سے کہا ”پیارے چچا! مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں؟ لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آتا ہے، میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کر سکتا مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاؤں۔“ 

چچانے جواب دیا ” دیکھ اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا۔ عبداللہ نے جواب دیا ” چچا جان! میں مسلمان ضرور بنوں گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع قبول کروں گا، شرک اور بت پرستی سے میں بیزار ہو چکا ہوں، اب جو آپ کا نشا ہے کیجئے اور جو کچھ میرے قبضہ میں زرو مال وغیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے، میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے اس لئے میں ان کے لئے سچے دین کو ترک نہیں کر سکتا ۔” عبداللہ نے یہ کہہ کر کپڑے اتار دیئے اور ماں کے سامنے گئے۔ ماں دیکھ کر حیران ہوئی کہ کیا ہوا! عبد اللہ نے کہا ” میں مومن اور موحد ہو گیا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں، ستر پوشی کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے مہربانی کر کے دے دیجیے۔ ماں نے ایک کمبل دے دیا، عبداللہ نے کمبل پھاڑا، آدھے کا تہبند بنا لیا، آدھا اوپر کر لیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا۔ علی الصبح مسجد نبوی میں پہنچ گیا اور مسجد سے تکیہ لگا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے انتظار میں بیٹھ گیا، نبی کریم صلی صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد مبارک میں آئے اسے دیکھ کر پوچھا کہ کون ہو؟ کہا میرا نام عبد العزی ہے، فقیر و مسافر ہوں، عاشق جمال اور طالب ہدایت ہوکر در دولت آپہنچا ہوں۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تمہارا نام عبد اللہ ہے، ذُو البِجَادَین لقب، تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں رہا کرو ۔ عبداللہ اصحاب صفہ میں شامل ہو گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھتا اور دن بھر عجب ذوق و شوق اور جوش و نشاط سے پڑھا کرتا۔ 

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کر رہا ہے کہ دوسروں کی قرأت میں مزاحمت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عمر ! اسے کچھ نہ کہو یہ تو خدا اور رسوں کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے۔

عبداللہ کے سامنے غزوہ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے عرض کیا یا رسول اللہ ! دعا فرمائیے کہ میں بھی راہِ خدا میں شہید ہو جاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جاؤ کسی درخت کا چھلکا اتار لاؤ۔ عبداللہ لے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چھلکا ان کی بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا: الہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں۔ عبداللہ نے کہا یا رسول الله ! میں تو شہادت کا طالب ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مر جاؤ تب بھی تم شہید ہی ہوگے۔ 

تبوک پہنچ کر یہی ہوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کر گئے۔ بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے۔ رات کا وقت تھا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چراغ تھا، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ان کی لاش کو لحد میں رکھ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فرما رہے تھے: اپنے بھائی کو مجھ سے قریب کرو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا میں فرمایا ”اے اللہ میں ان سے راضی ہوا تو بھی ان سے راضی ہو جا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کاش اس قبر میں میں دفن کیا جاتا۔ 

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

یہ بھی پڑھیں