ایک نوجوان صحابی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عجیب محبت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت پر جو دعا دی ہے کسی پر نہیں دی۔ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ نے آکر کہا کہ حضور! آپ سے مجھے بہت محبت ہے جو حکم دیں کروں گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی ماں کا گلا کاٹ کر لا۔ امتحان تھا فوراً تلوار اٹھا کر ماں کی طرف چلے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس بلا کر کہا کہ میں رشتے کاٹنے کے واسطے نہیں آیا۔ تیری محبت کا امتحان تھا تیری ماں نہیں مروانی، اس سے ذاتی تعلق مروانا ہے ماں سے ملو کہ خدا نے کہا ہے، نہ کہ اپنے ذاتی تعلق کی وجہ سے۔
اس واقعہ کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوچھنے آئے، تعلق والوں کی پوچھ ہوا کرتی ہے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بے ہوش تھے۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چل دینے والا ہے، یعنی یہ مرنے کے قریب پے اس کے مرنے کی اطلاع مجھے کرنا، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ۔ تشریف لے جاتے ہی انہیں ہوش آیا کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پوچھنے نہیں آئے؟ کہا گیا آئے تھے۔ کہنے لگے جب مر جاؤں خود ہی دفن کر دینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ کرنا کہ میرے محلے میں یہودی رہتے ہیں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم میری وجہ سے رات یہاں تشریف لائیں تو ممکن ہے کسی یہودی سے انہیں تکلیف پہنچے۔ میرے نام پر حبیب کو ایک ذرہ کی تکلیف برداشت نہیں ہے۔
چنانچہ انتقال ہوا۔ رشتے داروں نے نہلا دھلا کر کفن پہنا کر دفن کر دیا۔ اس زمانہ میں مرنے والے کے رشتہ دار بمبئی کلکتہ سے آنے کا انتظار کرتے ہیں اور یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کا بھی انتظار نہیں، مرنے اور دفن میں یوں وقت نہیں لگتا تھا، ارے وہاں تو حکم ہے کہ میت کو جلدی لے کر چلو اگر اچھا آدمی ہے تو اسے تاخیر کر کے اس کی نعمتوں سے کیوں محروم کر رہے ہو؟ اور اگر برا آدمی ہے پھر اسے اپنے کندھوں پر کیوں اٹھا رکھا ہے؟ جلدی اس وجہ سے کروائی کہ اس کا عذاب گھر ہی میں شروع نہ ہو جائے۔
تاریخ اس کی شاہد ہے عبید اللہ بن زیاد جس کے حکم پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قتل ہوا اس کا سر رکھا ہوا تھا، ایک اژدھا آیا ناک میں گھس کر منہ سے نکل آیا دو مرتبہ ایسا ہی کیا۔ سلیمان ( عمر بن عبدالعزیز سے پہلے بادشاہ ) کی میت کو جب قبر میں رکھا جانے لگا میت پلی لڑکے نے کہا میرا باپ زندہ ہو گیا۔
حضرت عمر نے کہا جلدی کرو دفن میں خدا کی پکڑ نے آلیا ہے۔
الغرض صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی، سبب معلوم ہوا قبر پر گئے دعا میں یہ بھی کہا: اے اللہ تو اس سے ایسے مل کہ تو اسے دیکھ کر ہنس رہا ہو، یہ تجھے دیکھ کر ہنس رہا ہو، یہ محبت کا انعام ہے، جس میں انسان کو محبوب کے علاوہ اور کچھ نہیں بھاتا محبت اگر آگئی تو سارے عمل آجائیں گے اس محبت کے واسطے اعمال پر محنت مانگی جاتی ہے۔