ایک ایسا حج۔۔۔ جو زمین پر جانے سے پہلے آسمان پر قبول ہو گیا!
دو حاجی، حجِ بیت اللہ کی سعادت پا کر جدہ ایئرپورٹ کے ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔
ان میں سے ایک نے بات چھیڑی:
“میں ایک ٹھیکیدار ہوں۔ اللہ کا شکر ہے، اس سال دسویں مرتبہ حج کرنے کی توفیق ملی۔”

دوسرے شخص، جن کا نام سعید تھا، نے مسکرا کر جواب دیا:
“حج مبرور، سعی مشکور، اور گناہ معفور۔”
پہلا شخص بولا: “آمین! آپ کا بھی۔ تو کیا آپ پہلے کبھی حج کر چکے ہیں؟”
سعید نے ایک لمحے کو خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سے کہا:
“میری حج کی داستان طویل ہے، شاید آپ کا وقت ضائع نہ کروں۔”
مخاطب نے اصرار کیا:
“جناب! ہم ویسے بھی انتظار ہی کر رہے ہیں، کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ ضرور سنائیں۔”
سعید نے کہا:
“میری کہانی کا آغاز بھی ’انتظار‘ سے ہوا۔
تیس سال ایک نجی اسپتال میں بطورِ فزیوتھراپسٹ کام کیا۔ زندگی بھر پیسے جوڑتا رہا۔
بالآخر حج کی رقم مکمل ہوئی۔
جس دن اسپتال سے پیسے لینے گیا، تو ایک ماں ملی جو اپنے معذور بچے کا علاج کرواتی تھی۔
اس کے چہرے پر ویرانی اور زبان پر الوداعی کلمات تھے:
‘الوداع سعید بھائی! شاید اب ہم دوبارہ اس اسپتال نہ آ سکیں۔’
میں حیران رہ گیا۔ پوچھا تو کہنے لگی:
‘نہیں، آپ کے علاج سے میرے بیٹے کو فائدہ ہوا۔ آپ اس کیلئے والد سے بڑھ کر تھے۔
لیکن اب اس کے والد کی نوکری ختم ہو گئی ہے، علاج کا خرچ اٹھا نہیں سکتے۔’
یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی چلی گئی۔
میں تڑپ گیا۔ دل پریشان، دماغ الجھ گیا۔
فوراً اسپتال انتظامیہ سے بات کی لیکن انکار ہو گیا:
‘یہ اسپتال ہے، کوئی خیراتی ادارہ نہیں!’
مایوس ہو کر باہر نکلا تو ہاتھ اپنی جیب پر گیا۔
وہی جیب جس میں حج کی جمع پونجی تھی۔
میری آنکھیں بھر آئیں۔
سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کیا:
“اے اللہ! تُو دلوں کے راز جاننے والا ہے۔
تُو جانتا ہے کہ تیرے گھر کا حج میری سب سے بڑی آرزو تھی،
لیکن میں نے تیری ایک بندى کی تکلیف کو اپنے حج پر ترجیح دی ہے،
پس تُو مجھے اپنے فضل سے محروم نہ کرنا۔”
میں نے وہ ساری رقم اسپتال کو دے دی تاکہ اس بچے کا چھ ماہ کا علاج ہو سکے،
اور اکاؤنٹنٹ سے کہا: اس ماں کو صرف اتنا کہنا کہ اسپتال کے پاس ’خصوصی فنڈ‘ ہے۔
وہ شخص دم بخود رہ گیا، پھر آبدیدہ ہو کر بولا:
“اللہ آپ کو جزائے خیر دے… لیکن پھر آپ نے حج کیسے کیا؟”
سعید نے مسکرا کر جواب دیا:
“اسی رات، جب میں آنکھوں میں آنسو لیے سویا،
تو خواب میں خود کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔
لوگ سلام کرتے، دعائیں دیتے کہ
‘حاجی سعید، حَجّ مبرور! تُو زمین پر آنے سے پہلے آسمان پر حج کر چکا ہے!’
جب آنکھ کھلی، دل روشنی سے بھر گیا۔
اگلی صبح اسپتال کے ڈائریکٹر کا فون آیا۔
اسپتال کا مالک حج پر جانا چاہتا تھا،
لیکن اس کا ذاتی معالج اپنی بیوی کے قریبِ ولادت ہونے کے باعث نہیں جا سکتا تھا۔
اس نے التجا کی:
‘کیا آپ اس سفر میں ان کے ساتھ جا سکتے ہیں؟’
میں نے فوراً سجدۂ شکر ادا کیا۔
یوں، بغیر کوئی رقم خرچ کیے، اللہ نے مجھے اپنے گھر بلایا۔
حج بھی نصیب ہوا، عزت بھی ملی،
اور ساتھ ہی مالک نے خوش ہو کر مجھے انعام بھی دیا۔
میں نے اُسے اُس ماں کی کہانی سنائی۔
تو اُس نے نہ صرف اس بچے کا سارا علاج اپنے خرچے پر کرانے کا حکم دیا،
بلکہ اسپتال میں مستقل ’غریب مریض فنڈ‘ قائم کیا،
اور اس بچے کے والد کو اپنی کمپنی میں نوکری بھی دی۔
میری حج کی رقم بھی واپس مل گئی…
بتاؤ! کیا میرے رب کا فضل میرے کسی عمل سے بڑھ کر نہیں؟
یہ سن کر وہ شخص خاموش کھڑا رہا،
پھر اٹھ کر سعید کا ماتھا چوما اور کہا:
“اللہ کی قسم! میں نے دَس حج کیے، لیکن آج احساس ہوا کہ تمہارا ایک حج، میرے ہزار حجوں پر بھاری ہے۔
کیونکہ میں خود گیا، اور تمہیں… اللہ نے بلایا!”
اللّٰهُمَّ ارزُقْنا حجًّا مبرورًا وزيارةً مقبولة۔ آمين يا رب العالمين