استصحاب

فہرست

استصحاب

استصحاب کسے کہتے ہیں، فقہ کی کتابوں میں استصحاب کی کیا تعریف ہے؟ کتب فقہ کی روشنی میں استصحاب کی لغوی و اصطلاحی تعریف ملاحظہ فرمائیں۔

استصحاب کی لغوی و اصطلاحی تعریف
استصحاب کی لغوی و اصطلاحی تعریف

استصحاب کو بھی قیاس کا ایک اہم ثانوی ماخذ سمجھا جاتا ہے اور ائمہ فقہ نے بنیادی مآخذ سے رہنمائی نہ ملنے کی صورت میں اس سے بہت استفادہ کیا ہے۔

استصحاب کے لغوی معنی

استصحاب کے لغوی معنی صحبت طلب کرنا، دوست بنانا اور باقی رکھنا ہیں۔

استصحاب کا اصطلاحی معنی

 اصطلاحی معنی یہ ہے کہ کسی چیز کے وجود اور عدم جود کو ہر حالت میں باقی رکھنا، یہاں تک کہ تبدیلی ثابت نہ ہو جائے۔ فقہاء نے اپنے مخصوص اسلوب میں اس طرح بیان کیا ہے۔ “حال میں کسی چیز کے ثبوت کا حکم محض اس بنیاد پر لگانا کہ وہ چیز ماضی میں موجود تھی ” ( هو الحكم بثبوت أمر في الزمان الثاني بناءً على أنه كان ثابتاً في الزمان الأول)

استصحاب کی سب سے واضح تعریف علامہ شوکانی نے کی ہے۔ کہ جس بات پر زمانہ ماضی سے عمل در آمد ہوتا چلا آرہا ہے، وہ زمانہ حال و مستقبل میں بھی اپنی اصل پر باقی رہے گی۔ بشرط یہ کہ تغیر پذیر کرنے والا کوئی حکم موجود نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بات زمانہ ماضی سے ہوتی آرہی ہے اور اس کے خلاف کوئی چیز نہیں ہے تو وہ اپنی جگہ پر باقی رہے گی۔

فقہاء نے اس کی بہت سی تعریفیں کی ہیں اور الفاظ میں فرق بھی پایا جاتا ہے۔ تمام تعریفوں کو جمع کرنے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ استصحاب ایک ایسا فقہی اصول ہے، جس کے ذریعہ ایسے امور کے سلسلے میں جو پہلے سے کبھی شرعی حکم کے تحت آتے ہوں، اس وقت تک اسی حال میں باقی رہنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے جب تک اس میں تبدیلی کا کوئی واضح ثبوت نہ مل جائے، اسی طرح جس امر کے حکم کی نفی یا اثبات میں کچھ ثابت نہ ہو تو اسے بھی اصول استصحاب کے تحت پہلی حالت میں برقرار رکھا جاتا ہے ؛ کیوں کہ اس دوسری حالت کے باعث اس کا وجود قائم رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی دلیل مل جائے تو حکم بھی بدل جائے گا۔

حجیت استصحاب

اس کی حجیت پر زیادہ تر فقہی مسالک متفق ہیں۔ ان کے درمیان اختلاف صرف اس سلسلے میں پایا جاتا ہے کہ کس حد تک اس اصول کو مؤثر مانا جائے۔ حنابلہ اسے سب سے زیادہ مؤثر مانتے ہیں، احناف بہت کم ہی اس سے استفادہ کرتے ہیں اور شوافع و مالکیہ نے درمیانی راہ اختیار کی ہے۔

اقسام استصحاب

اس کی متعدد قسمیں اور صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ بعض میں تمام فقہاء اتفاق رکھتے اور بعض میں مختلف فیہ ہیں۔ علامہ محمد ابو زہرہ نے اپنی کتاب میں چار قسمیں بیان کی ہیں جو تمام فقہاء کے یہاں پائی جاتی ہیں۔

استصحاب البرائة الأصلية ( بری الذمہ ہونے کی اصلیت کو باقی رکھنا):

 انسان کا کسی حکم سے اس وقت تک دست بردار رہنا جب تک اس کو حکم کا مکلف بنانے کے لیے کوئی دلیل قائم نہ ہو جائے۔ اگر کوئی دلیل ایسی سامنے آجاتی ہے جو اس کو کسی حکم کا مکلف بنادے تو پھر وہ حکم اس پر عائدہ ہو گا۔

استصحاب ما دل الشرع أو العقل على وجوده:

 یعنی شریعت یا عقل انسانی کسی چیز کے وجود یا عدم کا تقاضا کرے۔

استصحاب الحکم

 اس کا حاصل یہ ہے کہ شریعت نے کسی چیز کی حلت و حرمت کا حکم دیا تو یہ حکم مستقبل میں برقرار رہے گا جب تک اس چیز کی حلت یا حرمت پر کوئی واضح دلیل نہ مل جائے ۔

استصحاب الوصف: 

یعنی جو کیفیت شرعاً ثابت ہے ، اسے باقی رکھنا کہ کیفیت تبدیل نہ ہو جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا وجود یا عدم وجود زمانہ ماضی میں ثابت ہو وہ حکم زمانہ حال میں باقی رہے گا تاوقتیکہ اس کے خلاف دوسرا حکم ثابت ہو جائے۔

استصحاب کے مزید اقسام

اس کے علاوہ استصحاب کی دو قسمیں اور ہیں جو استاد محمصانی نے ذکر کی ہیں :

استصحاب المغلوب أو استصحاب الحال بالماضي: 

یعنی بر قراری معکوس یا حال کی حالت ماضی میں قائم رکھنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا وجود یا عدم وجود زمانہ حال میں ثابت ہو، اسے زمانہ ماضی میں برقرار رکھا جائے گا۔

استصحاب حكم الإجماع: 

اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے موقع پر اجماع کا حکم بر قرار رہے گا، اس کی صورت یہ ہے کہ ایک حالت میں کوئی حکم متفقہ طور پر ثابت ہو ، اس کے بعد اس متفقہ حکم کی صفت بدل جائے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی کو پانی نہ ملے تو وہ تیمم کر کے نماز پڑھ لیتا ہے اور اس کی نماز متفقہ طور پر صحیح ہو جاتی ہے؛ لیکن اگر وہ نماز پڑھتے ہوئے پانی دیکھ لے تو اس میں شریعت کا حکم کیا ہو گا؟ کیا حکم اجتماع کے استصحاب کی وجہ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی نماز درست ہو گئی؛ کیوں کہ پانی کے مشاہدے سے پہلے اجماع یہی تھا اور یہ حکم اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک کوئی دلیل یہ نہ ثابت کر دے کہ پانی کے مشاہدے نے نماز باطل کر دی ہے۔ یا یہ کہا جائے گا کہ اس کی نماز باطل ہو گئی ؟ کیوں کہ محل اجتماع کی صفت بدل گئی۔

اس سلسلے میں دورائیں ہیں :

(1) ابو حامد ، ابو الطیب اور قاضی ابوالعلی و غیرہ کی رائے یہ ہے کہ یہ قسم دلیل شرعی نہیں۔

 (2) ابو عبد اللہ ، رازی، مزنی اور صیرفی وغیرہ اسے حجت شرعی مانتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ حکم اجماع کا استصحاب اس وقت تک رہے گا جب تک کوئی اور ثبوت اس حکم اجماع کو باطل نہ کر دے۔

شیئر کریں

WhatsApp
Facebook
Twitter
Telegram

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *