استحسان
استحسان کے لغوی معنی کسی شے کو اچھا و مستحسن سمجھنا۔
چنانچہ استحسن فلان اس وقت کہا جائے گا جب کہ وہ کسی کی رائے، بات اور صورت کو اچھا سمجھے اگر چہ وہ دوسروں کے نزدیک بری ہی کیوں نہ ہو۔
اصطلاحی تعریف میں فقہاء میں قدرے اختلاف ہے، ہر مسلک میں الگ الگ تعریف کی گئی ہے۔
ذیل میں حنفی اور مالکی مکتب فکر کی تعریفات درج کی جاتی ہیں :
ابو الحسن کرخی حنفی نے یہ تعریف کی ہے:
استحسان پیش آمدہ مسئلہ کے نظائر میں ایک حکم محدود ہے جو اس میں بھی دیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ قوی وجہ کی بنا پر وہ حکم چھوڑ کر اس کے خلاف حکم دینے کو کہتے ہیں۔
(أن يحكم في المسألة بمثل ما حكم به في نظائرها الى خلافه لوجه اقوى يقتضى العدول عن الاول )
ابن رشد مالکی کی یہ تعریف ہے:
استحسان قیاس کے حکم میں کسی قسم کا غلو و مبالغہ پائے جانے کی وجہ سے دوسرے حکم کی طرف منتقل ہونا ایسی جگہ کہ قیاس سے استثناء کی وجہ موجود ہو۔
(الاستحسان هو طرح القياس الذي يؤدي إلى غلو في الحكم و مبالغة فيه إلى حكم آخر في موضع يقتضى أن يستثنى من ذلك القياس)
ضرورت و افادیت
انسانی ضرورت اور مصلحتوں کا دامن وسیع ہے۔ ان کو قانونی بندشوں میں جکڑ نا حد درجہ مشکل ہے۔ ضرور تیں پہلے وجود میں آتی ہیں پھر ان کو منظم شکل دینے میں قاعدہ و قانون بنائے جاتے ہیں۔ زمان و مکان کے لحاظ سے ان میں تبدیلی موقع و محل کے اعتبار سے ان میں جدت طرازی کبھی قیاس کی وسیع حدوں کو بھی تنگ بنا دیتی ہے یا نقصان دہ ثابت کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں فقہاء قیاسی حکم کو چھوڑ کر دوسر ا حکم اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ پہلے والے سے زیادہ آسان اور مفید ہوتا ہے۔ فقہاء ایسا کرنے میں اس لیے مجبور ہیں کہ حکمت الہی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو اور اس کے ذریعہ احکام معلوم کر کے فلاح و بہبود میں اضافہ اور مضرت کا دفعیہ ہو سکے۔ استحسان اسی ضرورت کے تحت کا پیدا کردہ اصول یا ماخذ ہے۔ اس کی تائید میں فقہاء کی تصریحات موجود ہیں اور یہ صورت اختیار کرتا ئین حکمت الہی کے موافق ہے۔ ارشاد ہے: یرید الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر (البقرة: 158) ترجمہ : اللہ تعالی تمھارے لیے سہولت اور آسانی چاہتا ہے ، مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
قرآن و سنت میں استحسان کے ماخذ شرعی ہونے کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔ البتہ وہ آیات جن میں ”بہتر “ کے انتخابات یا تنگی کے بجائے سہولت کو اختیار کرنے کا ذکر ہے ، ان کو فقہاء نے استحسان کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ ذیل کی دونوں آیات میں ”احسن“ کے انتخاب کا حکم دیا گیا ہے :
فبشر عباد الذين يستمعون القول فيتبعون أحسنه (الزمر : 18)
ترجمہ : میرے ان بندوں کو خوش خبری ” وأمر قومك يأخذوا بأحسنها (الاعراف: 145)
ترجمہ : اور اپنی قوم کو حکم دیجیے کہ ان کے بہتر “ مفہوم کی دیجیے کہ وہ جو بات سنتے ہیں ان میں احسن “ کی اتباع کرتے ہیں۔
پیروی کریں۔) اسی طرح حدیث میں بھی کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا سوائے حضرت عبداللہ ابن مسعود کے ایک موقوف قول کے : جس کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔
(فما رأى المؤمنون حسناً فهو عند الله حسن )
استحسان کی قسمیں
استحسان کی دو قسمیں ہیں۔
استحسان قیاسی: استحسان قیاسی یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں دو وصف پائے جائیں، جو دو مختلف قیاسوں کا تقاضا کریں۔ ایک قیاس ظاہر متبادر اور دوسرا قیاس خفی جو اس مسئلہ کے کسی دوسری اصل سے الحاق کا مقتضی ہو۔ (امام ابو ز ہر و) استحسان قیاسی در اصل متحد و قیاسات کے درمیان ایک قیاس کو ترجیح دینے کا نام ہے۔ خاص طور سے اس وقت جب کہ ایک ہی مسئلے میں قیاس کی متعدد صورتیں موجود ہوں اور دونوں ایک دوسرے کے بر خلاف ہوں۔
استحسان ضرورت: یہ ہے کہ اس میں کسی قیاس ظاہر کے خلاف اس لیے حکم لگایا جاتا ہے کہ کسی انسانی حاجت یا وقت کو رفع کرنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے یا مصلحت عامہ اس کی مقتضی ہوتی ہے اور یہ بات اس وقت پیش آتی ہے جب قیاس پر عمل کرنے میں کوئی تنگی یا مشکل پیش آجائے۔ ایسی صورت میں قیاس کا دامن چھوڑ کر وہ شکل اختیار کی جاتی ہے جس میں زیادہ سہولت و افادیت ہو ؛ تا کہ وقت کی مشکل اور تنگی دور کی جاسکے۔ اس لیے ایسے مسائل جن کو ایک دوسرے پر قیاس کیا جاتا ہے گو وہ سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں اور چند مشترک اصول ہی پر ان کی بنیاد ہوتی ہے؟ مگر کبھی کبھار موقع و محل کے اختلاف یا عارضی اسباب کی بنا پر ظلم و عدل اور وقت و سہولت کے اعتبار سے ان کے نتائج مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی ایک حکم ظلم ہوتا ہے مگر دوسرے وقت میں وہی عدل ہو جاتا ہے۔ کبھی ایک حکم میں سہولتہوتی ہے مگر کسی عارضی سبب سے وہ چیز انتہائی مشقت و تنگی بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میں شریعت اگر ایک ہی طرح کا معاملہ کرے تو اس کی ہمہ گیریت باقی نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ ایسی ہی صورتوں میں جب کہ قیاس پر عمل کرنے میں مفید نتائج بر آمد ہونے کا امکان نہ ہو۔ فقہاء استحسان کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اس کو استحسان ضرورت سے تعبیر کرتے ہیں۔
بعض فقہائے احناف نے استحسان کی مزید قسمیں بیان کی ہیں۔ جیسے : استحسان بالسنه ، استحسان بالا جماع و غیره ان تفصیلات سے استحسان کی حقیقت اور مآخذ شریعت میں اس کے مقام و مرتبہ کی تعیین بخوبی ہو جاتی ہے نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ قیاس کے استعمال سے بعض مسائل میں جو شدت اور پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے استحسان کے ذریعہ اس میں ایک معتدل اور مناسب راہ نکل آتی ہے۔
مثال : جیسا کہ کنوئیں کو پاک کرنے کا معاملہ ہے۔ کیوں کہ اصل یہ ہے کہ اگر پانی میں نجاست مل جائے تو وہ نجس ہو جاتا ہے جب تک کہ وہ بہہ نہ جائے لیکن ضرورت کی بنا پر اسے معاف کر دیا گیا۔