اردو میں نظم گوئی کی روایت کا آغاز وارتقا

اردو شاعری کے آغاز میں نظم سے کلام موزوں مراد لیا جاتا تھا۔ بعد میں غزل ایک مستقل صنف کے طور پر نظم سے الگ ہو گئی اور نظم کے حصے میں تمام اصناف آگئیں ۔ 

اردو میں نظم گوئی کی روایت کا آغاز وارتقا
اردو میں نظم گوئی کی روایت کا آغاز وارتقا

مرثیہ قصیدہ اور مثنوی جیسی دیگر اصناف جہاں طویل، بیانیہ، تسلسل اور وضاحت کی حامل تھیں وہیں غزل نزاکت بیان، اختصار، ابہام اور مخصوص مضامین کے بیان کی پابند تھی اس لیے غزل کو نظم سے امتیاز دینے کی کوشش کی گئی۔ اردو، عربی اور فارسی کی لغات میں اس کا یہی معنی ملتا ہے ۔ جامع اللغات ( مرتبہ خواجہ عبدالحکیم ) میں پہلی بار عربی، فارسی اور اردو کی قدیم لغات کے برخلاف نظم کو عام مفہوم سے ہٹ کر شعر کی ایک مستقل صنف کی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا اور نظم سے ایک مخصوص شعری صنف مراد لی گئی۔

نظم کی روایت بھی اردو شاعری میں بہت پرانی ہے اگر چہ نظم کا کوئی واضح تصور نہیں تھا مگر محمد قلی قطب شاہ، ولی ، سراج ، حاتم ، خان آرز و اور دیگر شعرا کے یہاں مختلف موضوعات پر مسلسل خیال بند نظمیں مل جاتی ہیں۔ نظیر اکبر آبادی خالص نظم کے شاعر ہیں ۔ ان کی غزلوں میں بھی نظموں کا انداز غالب ہے۔ نظیر کی نظمیں موضوعات کے تنوع، حقیقت نگاری اور سادگی کی بہترین مثالیں ہیں ۔

نظم ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مثنوی، مرثیہ، قصیدہ اور دوسری بیانیہ شاعری کی صورت میں نظم نے اپنے ارتقا کے ابتدائی مراحل طئے کیے۔ اردو میں شعری روایت کے آغاز میں نظم انہیں بیانیہ اصناف اور ہئیتوں میں ملتی ہے۔ نظم کے لیے کبھی کوئی مخصوص ہیئت متعین نہیں تھی البتہ الگ الگ ادوار میں مختلف ہیئتیں اور مقبول رہیں۔ اردو شاعری کے ابتدائی دور سے حالی کے عہد جدید تک مثنوی کی ہیئت میں نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حالی نے مثنوی کی ہیئت کو سب سے پسندیدہ خیال کرتے تھے۔

دکن میں لکھی گئی مثنویوں کو نظم کی ابتدائی صورت یا ابتدائی نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ قلی قطب شاہ نے عنوان دے کر ایک موضوع پر مسلسل غزلیں لکھی ہیں ۔ یہ غزل کی ہدایت میں ہونے کی وجہ سے غزل کے خانے میں رکھی جاتی ہیں لیکن یہ بھی اپنے بیان ، عنوان اور تسلسل کی بنا پر نظم کے ہی حصے میں آتی ہیں۔

دکن کے بعد جب شمالی ہند میں اردو شاعری کو فروغ اور رواج حاصل ہوا تو یہاں بھی بہت سی مثنویاں لکھی گئیں ۔ مثنوی کے علاوہ دیگر بیئتوں میں بھی مسلسل شاعری کی بہت سی مثالیں شمالی ہند میں ملتی ہیں ۔ فارسی سے ہٹ کر اٹھارہویں صدی میں جب اردو شاعری پر شعرائے دہلی نے داد سخن دینا شروع کیا تو فاری کی طرز پر اردو میں بھی غزل ہی مقبول صنف شاعری ٹھہری ۔ لیکن غزل کے ساتھ چند شعرا کے یہاں مثنوی مخمس، مسدس، ترجیع بند، ترکیب بند، قطعہ، رباعی وغیرہ اصناف کے نمونے ملتے ہیں جو نظم کے حصہ میں آتی تھیں۔ سراج الدین علی خان آرزو، شاہ مبارک آبرو، ظہور الدین حاتم ، شاکر ناجی، صدرالدین خاں فائمز ، سید عبد الولی عزلت سورتی اور میر عہد کی تاباں کے یہاں ایسے نمونے ملتے ہیں۔ خان آرزو کا ریختہ گوئی کی ترویج تبلیغ میں بہت اہم کردار رہا۔ انھوں نے فن ریختہ میں نئی نسل کی تربیت کی ۔ اور ریختہ کی ترویج کے لیے ہر مہینے کی پندرہ تاریخ کو اپنے مکان میں مشاعرہ کے مقابلے ” مراختے کی محفلیں منعقد کرتے تھے۔ خان آرزو نے بہت سی مثنویاں بھی لکھیں۔ نظم گوئی کے حوالے سے حاتم نے نظم وصف سراپا وصف قہوه ” وصف تمباکو اور ایک نظم واسوخت لکھی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی نظمیں لکھی گئیں۔ 

اردو نظم شاعری کے مطلع پر اپنی واضح اور اہم شناخت اس وقت قائم کرتی ہے جب نظیر اکبر آبادی اس کے افق پر طلوع ہوتے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی نے نظم کو اس کی شناخت اور حیثیت دی اس لیے نظم کا پہلا باقاعدہ اور کمل شاعر نظیر اکبر آبادی کوہی قرار دیا جاتا ہے۔ نظیر سے پہلے نظم کو نہ ہی زیادہ اہمیت حاصل تھی اور نہ اس کی بحیثیت صنف کوئی واضح شناخت تھی ، نظیر نے نظم میں عمدہ اور معیاری شاعری کر کے یہ ثابت کیا کہ نظم میں کتنی عمدہ ، خوبصورت، غیر معمولی اور فنی شاعری ہو سکتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے نظم میں مضمر شاعری کے وسیع امکانات سے آگاہ کیا اور اس کے نمونے پیش کرکے دکھائے۔

 نظیر پہلا شاعر ہے جس نے دانستہ اور شعوری طور پر اپنے خیال کے اظہار کا ذریعہ نظم کو بنایا اور نظم کو ایک مکمل اور اہم صنف کے طور پر ادبی منظر نامے پر ابھارا۔

نظیر نے نظم کو ایک اہم صنف شاعری کے طور پر متعارف کروایا اور اس کے غیر معمولی عملی نمونے پیش کر کے نظم کے ارتقا کا سنگ میل رکھ دیا۔ یہاں سے نظم ایک مخصوص صنف کی حیثیت سے اردو شاعری میں شامل تو ہوگئی تھی لیکن اس پر بہت زیادہ توجہ نظیر کے ہم عصر اور ان کے بعد کے شعراء نے بھی نہیں دی ۔ نظم کا ارتقا ہندوستان میں انگریزوں کے مکمل اقتدار کے بعد ہی عمل میں آیا اور انگریزی شاعری کے زیر اثر نظم کوفروغ دینے کی شعوری کوشش حالی ، آزاد اور اسماعیل میرٹھی وغیر ونے کی۔ 

مولانا حالی، محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی نے نظم کو اس عہد کے شعری منظر نامے پر نمایاں کر کے ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی ۔ انجمن پنجاب کے مناظموں نے نظم جدید کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔ چونکہ نظم کا یہ ارتقاعلی گڑھ تحریک کا مرہون منت تھا اس لیے محمڈن ایجوکیشنل کالج میں نظم کے اس نئے رجحان کا وہاں بہت اثر تھا اور نئی نسل کے شعرا کے ذہن وفکر پر اس نئے رجحان نے نظم لکھنے کی تحریک پیدا کر دی۔ سرسید ، حالی اور شبلی کی تربیت علم وادب نے یہاں کے طلبہ کی فکر میں جدید ر طرز تعلیم اور شعر وادب کی تفہیم کی ترغیب اور بیداری پیدا کی اور ان میں یہ شعور بیدار کیا کہ وقت کے تقاضوں اور ترقی کے موجودہ امکانات کے پیش نظر انگریزی اقتدار کے مروجہ طرز تعلیم اور ان کے زبان وادب یعنی انگریزی زبان وادب کی پیروی ضروری ہے۔ سرسید کی نظر ماضی میں پناہ لینے کے بجائے حال کے تقاضوں کو پورا کر کے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش پر تھی اس لیے انہوں نے شعر و ادب میں بھی جدید طرز اور رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

FacebookWhatsAppShare