اماں جی کو محسوس نہ ہونے دینا کہ ہم میں سے کوئی چل بسا ہے
جب میری ماں کی طلاق ہوگئی۔ وہ اپنی راہ چلی گئی۔ والد نے ہمیں اُس سے ملنے سے منع کر دیا۔ وقت نے یہ کر دکھایا کہ میں اسے بھول گیا اور ایک ظالم سوتیلی ماں کو اپنا لیا۔

میرا بھائی، جو کبھی کبھار ایک یا دو راتوں کے لیے گھر سے غائب رہتا، سزا کے خوف سے بے پروا ہو چکا تھا۔ جب وہ واپس آتا۔ شدید مار پیٹ اور تھپڑوں کے بعد بے ہوش ہونے کا ڈراما کرتا تھا۔ تاکہ وہ یہ نہ بتائے کہ کہاں غائب رہا۔
میں اُس کا واحد دوست تھا، لیکن اُس نے کبھی بھی مجھے نہیں بتایا کہ وہ اپنی غیر موجودگی کے دن کہاں گزارتا ہے۔ شاید اس لیے کہ میں بزدل تھا اور اپنے سائے سے بھی ڈرتا تھا۔
مجھے یاد ہے ایک مرتبہ تین دن سے زیادہ غائب رہا، والد غصے سے سیخ پا ہو گیا تھا۔ اور سوتیلی ماں کی باتوں نے اسے مزید بھڑکا دیا۔حتی کہ وہ میرے بھائی کو عارضی موت کے گھاٹ اتارنے کا خواہاں تھی۔ ایک گھنٹے کے اندر، بھائی جان کمرے کے فرش پر خون میں لت پت ڈھیر تھا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ تنہائی بھی مجھے اُس کے بھلانے پر مجبور کر دے گی۔
ایک یخ بستہ رات، مجھے اُس کے تکیے کے نیچے سے ایک حیرت انگیز خط ملا جس میں لکھا تھا:
“اماں جی سے ملتے رہنا، وہ نابینا ہے۔ ہماری آوازوں میں فرق نہیں کر سکتی۔ اُس کی دیکھ بھال کرتے رہنا۔ آپ تکلیف سے دو چار ہی کیوں نہ ہوں۔ اُسے یہ محسوس نہ ہونے دینا کہ ہم میں سے کوئی چل بسا ہے۔”
محمد زیاد الترک /اردن
ترجمہ: اسد اللہ میر الحسنی